سپریم کورٹ آف پاکستان نے 9 مئی واقعات میں ملوث 85 افراد کے خلاف فوجی عدالتوں میں چلنے والے مقدمات کے فیصلے سنانے کی اجازت دے دی ہے۔ اس سے قبل فوجی عدالتوں کے بارے سپریم کورٹ نے 3 مراحل میں مختلف فیصلے سنائے ہیں۔
23 اکتوبر 2023 مستعفی جج، جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں ایک 5 رکنی بینچ نے سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو خلاف قانون قرار دیا تھا۔
13 دسمبر 2023 جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں ایک بینچ نے 23 اکتوبر کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے جزوی طور پر سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی مشروط اجازت اس شرط کے ساتھ دی کی سپریم کورٹ فیصلے تک فوجی عدالتوں میں فیصلے نہیں سنائے جائیں گے۔
مزید پڑھیں: آئینی بینچ نے ملٹری کورٹس کو فیصلہ سنانے کی اجازت دے دی
28 مارچ 2024 کو جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں ایک بینچ نے فوجی عدالتوں کو جزوی طور پر ایسے افراد کے فیصلے سنانے کی اجازت دی تھی جن کی رہائی عید سے پہلے ممکن ہو۔
آج آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کو فیصلے سنانے کی اجازت دی تو کیا یہ مثبت اقدام ہے؟
فوجی عدالتوں اور قوانین سے متعلق معروف وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم ایڈووکیٹ نے آئینی بینچ فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ خوش آئند فیصلہ ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ فوجی عدالتیں بہت سے مقدمات میں ٹرائل مکمل کر چکی ہیں اور قانون کے مطابق ایسے ملزمان کو فیصلہ سنائے جانے کے بعد سویلین جیل منتقل کیا جاتا ہے، جہاں وہ اپنے اہلخانہ کے ساتھ ملاقاتیں کر سکتے ہیں اور وہیں سے 40 دن کے اندر ملٹری کورٹ آف اپیلز میں اپیلیں بھی دائر کر سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: ملٹری کورٹس میں 9 مئی کے ملزمان کا ٹرائل کیسے ہوا؟
کئی ملزمان ایسے ہیں جن کی سزائیں پوری ہو چکی ہیں لیکن وہ صرف اس وجہ سے جیلوں میں ہیں کیوںکہ ان کے فیصلے نہیں سنائے جا سکتے۔ تو سپریم کورٹ فیصلے کے بعد ایسے افراد فوری طور پر رہا ہو جائیں گے۔
اس فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ بظاہر سویلین کے فوجی عدالتیں میں ٹرائل کی توثیق کر دی گئی ہے، شاہ خاور
سابق اٹارنی جنرل شاہ خاور نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئینی بینچ نے اس فیصلے کے ذریعے سے سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی توثیق کر دی ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 85 لوگوں کے فیصلے سنا سکتے ہیں تو پیچھے تو 18 لوگ ہی رہ جائیں گے۔ ان میں سے اکثریت اپنی سزائیں پوری کر چکے ہیں اور مختلف مواقع پر ملنے والی معافیاں ملا کر وہ رہا ہو جائیں گے۔
مزید پڑھیں: ملٹری کورٹس: جو ملزمان بری ہوسکتے ہیں کریں باقی قانونی لڑائی چلتی رہے گی، سپریم کورٹ
ان کا کہنا تھا کہ پھر اگر کچھ لوگ باقی رہ گئے ہیں تو وہ ملٹری کورٹ آف اپیلز میں اپیلیں دائر کریں گے جس کے تحت ان کی سزاؤں میں مزید تخفیف کر دی جائے گی۔ لیکن اس فیصلے کا منطقی نتیجہ یہی ہے کہ آئینی بینچ نے بظاہر سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی توثیق کر دی ہے۔ اب 90 فیصد چانس یہی ہیں کہ وفاقی حکومت کی اپیلیں منظور ہو جائیں گی اور سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف اپیلیں مسترد ہونے کا امکان زیادہ ہو گیا ہے۔