گزشتہ برس 21 اکتوبر کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری دی تو اُس سے اگلے روز 22 اکتوبر کو صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے اس ترمیم پر دستخط کرکے اِسے آئین کا حصہ بنا دیا۔ 5 نومبر کو سپریم کورٹ کے دو سینیئر موسٹ ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط لکھا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کی جائیں اور اِس کے لیے فُل کورٹ تشکیل دیا جائے۔ 12 دسمبر کو آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کو ڈائری نمبر بھی الاٹ کیا گیا لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہ سماعت کے لیے مقرر نہیں ہو سکیں۔
چیف جسٹس کی تقرری کا طریقہ کار ہو یا آئینی بینچ کی تشکیل سب 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے سے ممکن ہوا اور اس ترمیم کی تنسیخ کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ عدالتی نظام کو رول بیک کردیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں فوجی عدالتوں سے پہلے 26ویں ترمیم کا مقدمہ سنا جائے، سابق چیف جسٹس نے متفرق درخواست دائر کردی
اِس ترمیم کے منظوری سے لے کر اب تک 12 درخواستیں دائر ہوچُکی ہیں بلکہ ایک درخواست تو ترمیم کی منظوری سے قبل 16 ستمبر 2024 کو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر عابد زبیری نے اپنے وکیل حامد خان کے ذریعے سے دائر کی لیکن یہ درخواست اُنہوں نے 22 اکتوبر کو واپس لے لی، جس کی وجہ سے درخواست خارج کردی گئی۔
13 دسمبر کو لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کی جلد سماعت کے لیے درخواست بھی دائر کی تھی، اور گزشتہ روز 8 جنوری کو مذکورہ بار ایسوسی ایشن نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی کہ اس درخواست کی سماعت لائیو نشر کی جائے۔
26ویں آئینی ترمیم کے معاملے پر وکلا کی رائے تقسیم
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے موجودہ صدر میاں رؤف عطا 26 ویں آئینی ترمیم کے حامی ہیں اور اس سلسلے میں اُنہوں نے ایک خط بھی جاری کیا جس میں اُنہوں نے اس حمایت کی وجوہات بیان کرتے ہوئے لکھا کہ ایک تو یہ ترمیم پارلیمان کے ذریعے ہوئی ہے، دوسرا اس ترمیم کے ذریعے عدلیہ میں مداخلت کم ہوئی ہے۔ لیکن سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن ہی کے سیکریٹری سلمان منصور نے گزشتہ روز 8 جنوری کو اس ترمیم کے خلاف درخواست دائر کردی۔
اس کے علاوہ 6 جنوری 2025 کو منیر اے ملک، حامد خان،علی احمد کرد، عابد زبیری، سلمان منصور اور عبداللہ کنگرانی سمیت 53 سینیئر وکلا نے صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو خط لکھ دیا۔ خط میں چھبیسویں آئینی ترمیم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی اس کی حمایت پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔
خط میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے تمام ججز پر مشتمل بینچ 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرے۔
’آئینی ترمیم کے خلاف وکلا تحریک جو نہ چل سکی‘
21 اکتوبر کو سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات سے متعلق 13 جنوری 2024 کے فیصلے پر نظرثانی درخواست سماعت کے لیے مقرر تھی اور اُس وقت کے چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی بینچ کی سربراہی کررہے تھے جب پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر بیرسٹر علی ظفر نے اُن سے کہاکہ اب آئینی بینچ بن جانے کے بعد آپ اِس مقدمے کی سماعت نہیں کرسکتے۔ جبکہ پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ حامد خان نے اُسی روز میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ آج کا دن سیاہ ترین دن ہے۔ 26 ویں آئینی ترمیم نے آئین کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر عابد زبیری نے اُسی روز میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ہم عدلیہ کا جنازہ نہیں اُٹھنے دیں گے۔ ممبر پنجاب بار کونسل ایڈووکیٹ توفیق آصف نےکہاکہ وکلا آئین کی بالا دستی کے لیے ایک ہیں۔ دو تین روز میں مزید بھیانک شکل سامنے آئے گی۔
وکلا رہنماؤں نے اِس آئینی ترمیم کے خلاف تحریک چلانے کی باتیں کیں لیکن یہ تحریک کبھی نہیں چل سکی۔ اسی طرح سے اُس روز کئی وکلا نے اس ترمیم کو آئین کی اساس کے خلاف اور کئی نے اِسے عدلیہ کی آزادی کے خلاف قرار دیا۔
2 نومبر 2024 کو معروف وکیل علی احمد کرد نے سپریم کورٹ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ہم نے نیشنل ایکشن کمیٹی کے صدر کے طور پر منیر اے ملک کو منتخب کیا ہے اور ہم نے اپنی وکلاء تحریک کو ’نہیں چھڈاں گے‘ کا نعرہ دیا ہے۔
بڑا مشکل ہے آئینی بینچ کہے کہ جس قانون کے تحت سُن رہا ہوں وہ قانون ہی غلط ہے، بیرسٹر علی ظفر
پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اور معروف قانون دان بیرسٹر علی ظفر نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ یہ مقدمہ بذات خود انتہائی اہم ہے اور اُس میں درخواستوں کی تعداد سے زیادہ اس کی نوعیت اہم ہے۔
اُنہوں نے کہاکہ اُن کے خیال سے آئینی بینچ فوجی عدالتوں کے مقدمے کے بعد اِس کی سماعت کرےگا۔ آئینی بینچ اگر اس مقدمے کی سماعت کرتا ہے تو آیا یہ مفادات کے تصادم کے زُمرے میں نہیں آئےگا کیونکہ آئینی بینچ تو بنا ہی 26 ویں آئینی ترمیم کے تحت ہے، اس سوال کے جواب میں علی ظفر نے کہاکہ یہ بالکل درست ہے لیکن مفادات کا ٹکراؤ تب بھی ہوتا ہے جب ہم کہتے ہیں عدالت کے پاس اِس مقدمے کو سننے کا اختیار نہیں یا عدالتیں جب توہینِ عدالت کے مقدمات سنتی ہیں۔
اس مقدمے کی آئینی بینچ میں سماعت مفادات کا ٹکراؤ ہے، عمران شفیق ایڈووکیٹ
26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف جماعت اِسلامی کی درخواست میں وکیل عمران شفیق ایڈووکیٹ نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ سپریم کورٹ اِس معاملے میں تاخیر اور صرفِ نظر کرکے درست اقدام نہیں کررہا۔ اس درخواست کی سماعت میں تاخیر کا مقصد صرف اور صرف اس کو لٹکانا ہے حالانکہ یہ آئینی مسئلہ ہے اور سب سے اہم معاملہ ہے۔
اُنہوں نے کہاکہ گوکہ اس معاملے کی سماعت آئینی بینچ کرےگا لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ آئینی بینچ کے لیے مفادات کے ٹکراؤ والی صورتحال ہے کیونکہ وہ خود 26 ویں آئینی ترمیم کے تحت وجود میں آیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فُل کورٹ جس میں سپریم کورٹ کے تمام جج صاحبان شامل ہوں وہ اِس معاملے کو سنیں کیونکہ یہ عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے۔
فُل کورٹ سماعت کا فیصلہ آئینی بینچ ہی کرےگا، عابد زبیری ایڈووکیٹ
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر عابد زُبیری نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ آئینی بینچ نے ہی اِس معاملے کی شنوائی کرنی ہے اور وہی یہ فیصلہ کرےگا کہ آیا ان درخواستوں کو فُل کورٹ میں سماعت کیا جائے یا نہیں، لیکن ابھی فی الحال وہ فوجی عدالتوں والے مقدمے میں مصروف ہے۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ وہ اس مقدمے کی سماعت کرے اور فیصلہ کرے لیکن وہ نہیں کررہا تو ہم کیا کرسکتے ہیں۔
26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف اب تک کس کس نے درخواستیں دائر کی ہیں؟
22 اکتوبر 2024 کو 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف پہلی درخواست سپریم کورٹ میں دائر ہوئی جس میں محمد انس نامی درخواست گزار نے اپنے وکیل عدنان خان کے توسط سے عدالت سے استدعا کی کہ یہ ترمیم اختیارات کی تقسیم کے حوالے سے آئین کے بنیادی ڈھانچے میں دیے گئے اختیارات سے متجاوز ہے، لہٰذا اسے کالعدم قرار دیا جائے۔
دوسری درخواست 24 اکتوبر 2024 کو افراسیاب خٹک نے دائر کی جس میں اُنہوں نے مؤقف اپنایا کہ اس ترمیم کے لیے اراکینِ اسمبلی نے رضاکارانہ طور پر ووٹ نہیں ڈالا، سپریم کورٹ اِس معاملے کی عدالتی تحقیقات کرائے، اور آئینی بینچ 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستیں نہیں سُن سکتا، اس کے لیے فُل کورٹ بینچ تشکیل دیا جائے۔
تیسری درخواست ایڈووکیٹ میاں آصف کی جانب سے 25 اکتوبر 2024 کو دائر کی گئی جس میں اُنہوں نے مؤقف اپنایا کہ عدلیہ کی آزادی آئین کے بنیادی ڈھانچے کا جُز ہے اس کے خلاف قانون سازی نہیں کی جا سکتی۔
28 اکتوبر 2024 کو سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد زبیری اور دیگر 6 وکلا نے آئینی ترمیم کے خلاف درخواست دائر کردی جس میں اُنہوں نے مؤقف اپنایا کہ پارلیمنٹ نامکمل اور اس کی آئینی حیثیت پر بھی قانونی سوالات ہیں، لہٰذا یہ ترمیم آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہے۔
28 اکتوبر ہی کو بلوچستان بار کونسل اور بلوچستان ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست دائر کردی جس میں مؤقف اپنایا کہ یہ آئینی ترمیم آئین میں فراہم کردہ بنیادی حقوق کے برخلاف ہے۔
2 نومبر 2024 کو لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے وکیل حامد خان کے ذریعے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست دائر کردی جس میں مؤقف اپنایا گیا کہ آئینی ترمیم سے قبل کی صورتحال کو برقرار رکھا جائے اور اِس ترمیم کے تحت اُٹھائے گئے اقدامات کو روکا جائے۔
4 نومبر کو جماعت اِسلامی نے اپنے وکیل عمران شفیق کے ذریعے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست دائر کی۔
5 نومبر کو پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر احمد خان بھچر نے اپنے وکیل اظہر صدیق کے ذریعے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست دائر کی۔
8 نومبر کو 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف اختر مینگل، فہمیدہ مرزا، محسن داوڑ اور مصطفیٰ نواز کھوکھر نے درخواست دائر کرتے ہوئے استدعا کی اِس ترمیم کو کالعدم قرار دیا جائے۔
18 نومبرکو 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف خواتین وکلا نے درخواست دائر کی۔ زینب جنجوعہ اور ایمان مزاری سمیت 28 خواتین وکلا نے درخواست دائر کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ سماعت کے لیے فُل بینچ تشکیل دیا جائے۔
20 دسمبر 2024 کو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق 8 صدور نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف سردار لطیف کھوسہ اور بیرسٹر صلاح الدین کے ذریعے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی جس میں استدعا کی گئی کہ اس ترمیم کو کالعدم قرار دیا جائے کیونکہ یہ ترمیم مخصوص نشستوں کے فیصلے کے بغیر نہیں ہو سکتی تھی۔
یہ بھی پڑھیں 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں کی سماعت اسی ہفتہ کی جائے، 2 سینیئر ججوں کا چیف جسٹس سے مطالبہ
8 جنوری 2025 کو سیکریٹری سپریم کورٹ بار سلمان منصور نے 26ویں آئینی ترمیم کو چیلنج کرتے ہوئے اِسے کالعدم کرنے کی استدعا کی ہے۔