حماس نے اسرائیل سے جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کی منظوری دے دی۔ اسرائیل نے اب تک اس تجویز پر ردعمل کا اعلان نہیں کیا ہے جبکہ غزہ میں اپنے حملے تیز تر کرتے ہوئے محض 24 گھنٹوں کے دوران کم از کم 62 افراد شہید کردیے دوسری جانب جنگ بندی پر فریقین کی رضامندی کی اطلاعات پر غزہ میں لوگ خوشی سے سڑکوں پر نکل آئے۔
الجزیرہ کے مطابق امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ غزہ میں ہم نے یرغمالیوں کے لیے ایک معاہدہ کیا ہے جنہیں جلد رہا کردیا جائے گا۔
سعودی عرب کا غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے پر حمایت اور خیر مقدم کا اعلان
سعودی وزارت خارجہ نے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے پر اپنی حمایت اور خیر مقدم کا اظہار کیا ہے۔ وزارت نے اس معاہدے کو خطے میں امن کے قیام کے لیے ایک اہم پیش رفت قرار دیا ہے اور ان تمام کوششوں کو سراہا ہے جو قطر، مصر، اور امریکا کی جانب سے اس عمل کو کامیاب بنانے کے لیے کی گئیں۔
بیان میں زور دیا گیا کہ اس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے اسرائیل کو غزہ پر جارحیت روکنا ہوگی اور فلسطینی سرزمین پر قبضے کو ختم کرتے ہوئے وہاں کے عوام کو ان کے علاقوں میں واپس جانے کی اجازت دینا ہوگی۔
وزارت نے واضح کیا کہ یہ معاہدہ فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرتے ہوئے 1967 کی سرحدوں پر ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی بنیاد فراہم کرتا ہے، جس کا دارالحکومت مشرقی القدس ہو۔ معاہدہ ان وحشیانہ جنگوں کے خاتمے کا ذریعہ بنے گا، جن میں اب تک 45 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور ایک لاکھ سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: حماس اسرائیل معاہدہ نزدیک تر، صیہونی فوج کے حملوں میں بھی شدت
حماس نے غزہ جنگ بندی معاہدے سے متعلق باضابطہ جواب ثالث فریقوں کو سونپ دیا ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ مجوزہ جنگ بندی ڈیل پر تبادلہ خیال کے لیے ہنگامی اجلاس منعقد کیا تھا اور یہ ان کا اسرائیل کی غزہ میں وحشیانہ نسل کشی رکوانے کے حوالے سے ایک دانشمندانہ فیصلہ ہے۔
غیر ملکی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ حماس نے غزہ میں جنگ بندی سے متعلق معاہدے کی زبانی منظوری دی ہے اور فلسطینی حکام کو حتمی تحریری معاہدے کے لیے معلومات کا انتظار ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق غزہ میں جنگ بندی کی صورت میں قیدیوں کے تبادلے کے لیے مصر نے رفاہ چوکی کھولنے کی تیاری شروع کر دی ہے۔
BREAKING: CELEBRATIONS FILL THE STREETS OF GAZA FOLLOWING A CEASEFIRE ANNOUNCEMENT! pic.twitter.com/xD4Or9FQ6B
— Sulaiman Ahmed (@ShaykhSulaiman) January 15, 2025
حماس نے الجزیرہ عربی کو بتایا ہے کہ خلیل الحیہ کی قیادت میں ایک وفد نے قطر اور مصر میں ثالثوں کو جنگ بندی اور قیدیوں کے معاہدے کی منظوری دے دی ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ معاہدے پر حماس کی منظوری کے بعد دستخط کا عمل شروع ہو جائے گا۔ جمعرات سے جنگ بندی کے آغاز پر قیدیوں کے تبادلے کا سلسلہ اتوار کو شروع ہونے متوقع ہے۔
اسرائیلی حکام نے کہا ہے کہ حماس غزہ جنگ بندی اور مغویوں کی واپسی کے قطری ثالث کے مسودے پر راضی ہے اور معاہدے کے قطری مسودے کے تحت پہلے مرحلے میں 33 اسرائیلی مغوی رہا کیے جائیں گے جبکہ معاہدے کے 16ویں روز سے جنگ بندی ڈیل کے دوسرے مرحلے پر مذاکرات شروع ہوں گے۔
مزید پڑھیے: حماس نے غزہ میں جنگ بندی معاہدے کا مسودہ قبول کرلیا؟
قطری ثالت کے مسودے کے مطابق غزہ سے اسرائیلی فوج کی واپسی مرحلہ وار ہوگی۔ اسرائیلی فورسز غزہ پٹی کے سرحدی اطراف تعینات ہوں گی، جنوبی غزہ میں فیلی ڈیلفی راہداری کے لیے علیحدہ سیکیورٹی انتظامات کیے جائیں گے اور شمالی غزہ کے غیر مسلح فلسطینیوں کو واپسی کی اجازت دی جائے گی۔
عرب میڈیا کے مطابق غزہ جنگ بندی کی صورت میں قیدیوں کے تبادلے کے لیے مصر نے رفاہ چوکی کھولنے کی تیاری شروع کر دی ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے ترجمان کی جانب سے حماس کی جنگ بندی معاہدے کی منظوری کی تردید کی گئی ہے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ جنگ بندی معاہدے پر حماس کی منظوری موصول نہیں ہوئی ہے۔
ایک طرف تو حماس اور اسرائیل کے بیچ جنگ بندی پر تیزی سے پیشرفت ہورہی ہے جبکہ دوسری جانب اسرائیلی فوج کے غزہ میں حملوں میں مزید شدت پیدا ہوگئی ہے۔
اسرائیلی فورسز نے غزہ پر حملے تیز کرتے ہوئے ایک اسکول پناہ لیے ہوئے نہتے فلسطینیوں اور پٹی میں کئی گھروں پر بمباری کی ہے۔ اس طرح 24 گھنٹوں کے دوران کم از کم 62 افراد شہید کیے جاچکے ہیں۔
دریں اثنا تل ابیب میں ہزاروں اسرائیلیوں نے ریلی نکالی جس میں غزہ میں قید قیدیوں کی رہائی کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا گیا۔ دوسری جانب ایک گروہ نے جنگ جاری رکھنے کا مطالبہ کرتے ہوئے یروشلم میں مارچ کیا۔
غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی میں 7 اکتوبر 2023 سے اب تک 46 ہزار 707 فلسطینی جام شہادت نوش کرچکے ہیں جبکہ ایک لاکھ 10 ہزار 265 زخمی ہوئے ہیں۔
یاد رہے کہ حماس نے 7 اکتوبر 2023 کو اپنے حملوں میں اسرائیل میں ایک ہزار 139 افراد کو ماردیا تھا جبکہ 200 سے زیادہ کو یرغمال بنا لیا گیا۔ اسرائیل کی جانب سے یہ معاہدہ انہی یرغمالیوں کو چھڑوانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
قطری وزیر اعظم کی جانب سے غزہ جنگ بندی معاہدہ طے پانے کا اعلان
قطری وزیر اعظم نے غزہ میں جنگ بندی معاہدہ طے پانے کا اعلان کردیا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ جنگ بندی معاہدہ کروانے کے لیے قطر، مصر اور امریکا کی کوششیں کامیاب ہوگئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کااطلاق19 جنوری سے ہوگا۔
یرغمالی جلد رہا ہوجائیں گے، ٹرمپ
دریں اثنا غیر ملکی میڈیا کے مطابق نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ میں موجود اسرائیلی مغویوں کی رہائی کا معاہدہ طے پانے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یرغمالی جلد ہی رہا ہوجائیں گے۔
مزید پڑھیں: غزہ جنگ بندی معاہدے کے لیے مذاکرات جاری، حماس 2 اہم شرائط سے دستبردار
میڈیا کا کہنا ہے کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس اور اسرائیل غزہ دونوں جنگ بندی معاہدے پر متفق ہوگئے۔
خبررساں ایجنسی رائٹرز نے جنگ مذاکرات سے باخبر ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ بندی معاہدے پر اتفاق کے بعد 15 ماہ سے زائد عرصے سے جاری جنگ کے اختتام کی امید پیدا ہوگئی ہے۔
اس سے قبل فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے غزہ جنگ بندی معاہدے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
ٹرمپ نے غزہ جنگ بندی معاہدے میں ثالثی کا کریڈٹ لیا
امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ میں جنگ بندی معاہدے کی ثالثی کا سہرا اپنے سر لیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پیش رفت صرف نومبر 2024 کے صدارتی انتخابات میں ’ہماری تاریخی فتح کے نتیجے‘ کے طور پر ہوئی۔
ٹرمپ نے اپنے ٹروتھ سوشل نیٹ ورک پر کہا کہ اس معاہدے کی جس کی باضابطہ طور پر تصدیق ہونا باقی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ معاہدہ پوری دنیا کو یہ اشارہ دیتا ہے کہ میری انتظامیہ تمام امریکیوں اور ہمارے اتحادیوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے امن کی تلاش اور ڈیل پر بات چیت کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے وائٹ ہاؤس میں رہے بغیر بھی بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ذرا ان تمام حیرت انگیز چیزوں کا تصور کریں جو میرے وائٹ ہاؤس واپس آنے پر رونما ہوں گی اور میری انتظامیہ کی مکمل تصدیق ہو گئی ہے تاکہ وہ امریکا کے لیے مزید کامیابیاں حاصل کر سکیں۔
اسرائیلی فوجیوں کا انخلا شروع؟
اسرائیلی میڈیا کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم دوحہ میں موجود مذاکراتی ٹیم کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں جبکہ اسرائیلی فوج نے جنوبی غزہ کی فیلا ڈیلفی راہداری سے انخلا شروع کر دیا۔
جشن اور آبدیدہ مائیں
وسطی غزہ میں دیر البلاح سے رپورٹ کرتے ہوئے الجزیرہ کا کہنا ہے کہ فلسطینی جنگ بندی کے معاہدے کی خبر کا خیر مقدم کرنے کے لیے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی۔
گزشتہ 15 مہینوں سے اسرائیلی فوج کی بمباری سہتے لوگوں نے معاہدے کے حوالے سے پیش رفت کا سن کر سکون کا سانس لیا ہے۔
جشن مناتے لوگوں کی آنکھوں میں آنسو تھے اور مائیں اپنے بچوں کو گلے لگا رہی تھیں اور اللہ کا شکر ادا کر رہی تھیں کہ اب ان کی جانیں بچ جائیں گی۔
ہم غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟
فلسطینی گروپ حماس نے غزہ کو تباہ کرنے والی 460 دن سے زائد جنگ کے بعد اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے پر اتفاق کیا ہے۔
غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک 46,000 سے زیادہ فلسطینیوں کو ہلاک کر چکا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر کا کہنا ہے کہ ابھی تک کسی معاہدے پر اتفاق نہیں ہوا ہے، تاہم حتمی تفصیلات کو ترتیب دیا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:مبینہ انتخابی دھاندلی: پاکستان تحریک انصاف کا 8 فروری کو ملک گیر احتجاج کا فیصلہ
عرب میڈیا رپورٹ کے مطابق اس معاملے پر جمعرات کو اسرائیلی حکومت کی رائے شماری متوقع ہے۔
دوسری جانب امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ ایک معاہدے پر اتفاق ہو گیا ہے۔
عارضی جنگ بندی
رپورٹ کردہ معاہدے میں ایک عارضی جنگ بندی شامل ہے جو کہ فی الحال غزہ پر ہونے والی تباہی کو ختم کرے گی۔ نیز غزہ میں قید اسیروں اور اسرائیل کے زیر حراست بہت سے قیدیوں کی رہائی بھی شامل ہے۔
یہ معاہدہ بالآخر بے گھر فلسطینیوں کو اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت دے گا ۔ حالانکہ اسرائیل کی جان بوجھ کر تباہی کی مہم کے بعد، بہت سے گھر اب باقی نہیں رہے۔
معاہدے کا متن
معاہدے کا متن ابھی تک باضابطہ طور پر جاری نہیں کیا گیا ہے، عرب اور مغربی میڈیا کے مطابق یہ معاہدہ درج ذیل نکات پر مشتمل ہے۔
پہلا مرحلہ
ابتدائی مرحلہ چھ ہفتے تک جاری رہے گا، اور اس میں محدود قیدیوں کا تبادلہ، غزہ میں اسرائیلی فوجیوں کا جزوی انخلا اور انکلیو میں امداد کا اضافہ شامل ہوگا۔
قیدیوں کا تبادلہ
7 اکتوبر 2023 کو جنوبی اسرائیل پر حماس کی قیادت میں کیے گئے حملے کے دوران 33 اسرائیلی اسیران، جن میں خواتین، بچے اور 50 سال سے زیادہ عمر کے شہری شامل ہیں، رہا کیے جائیں گے۔ بدلے میں اسرائیل اس مرحلے کے دوران تقریباً 2000 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا، جن میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے 250 قیدی بھی شامل ہیں۔ رہا کیے جانے والے فلسطینیوں میں 1000 کے قریب ایسے ہیں جنہیں 7 اکتوبر کے بعد حراست میں لیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:اسرائیلیوں مغویوں کی رہائی کا معاہدہ طے پاگیا، ٹرمپ کا دعویٰ
اسرائیلی فوجیوں کی واپسی
اسیروں کے تبادلے کے ساتھ ساتھ، اسرائیل غزہ کے آبادی کے مراکز سے اپنی افواج کو غزہ کی اسرائیل کے ساتھ سرحد کے اندر 700 میٹر سے زیادہ کے علاقوں میں واپس بلا لے گا۔ تاہم، اس سے نیٹزارم کوریڈور خارج ہو سکتا ہے۔
اسرائیل انکلیو کے محصور شمال میں شہریوں کو اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت دے گا، جہاں امدادی ایجنسیوں نے خبردار کیا ہے کہ قحط نے زور پکڑ لیا ہے، اور انکلیو میں امداد کے اضافے کی اجازت دے گا ،جس کے مطابق روزانہ 600 ٹرک تک امداد لاسکیں گے۔
زخمیوں کا علاج
اسرائیل زخمی فلسطینیوں کو علاج کے لیے غزہ کی پٹی سے نکلنے کی بھی اجازت دے گا اور پہلے مرحلے پر عمل درآمد شروع ہونے کے سات دن بعد مصر کے ساتھ رفح کراسنگ کھول دے گا۔
اسرائیلی افواج مصر اور غزہ کے درمیان سرحدی علاقے فلاڈیلفی کوریڈور میں اپنی موجودگی کو کم کر دیں گی اور پھر بعد کے مراحل میں مکمل طور پر پیچھے ہٹ جائیں گی۔
پہلے مرحلے کے بعد کیا ہوتا ہے؟
دوسرے اور تیسرے مرحلے کی تفصیلات، اگرچہ اصولی طور پر اس پر اتفاق کیا گیا ہے، پہلے مرحلے کے دوران بات چیت کی جائے گی۔
اسرائیل نے اصرار کیا ہے کہ پہلا مرحلہ مکمل ہونے اور اس کے شہری قیدیوں کی واپسی کے بعد اس کے حملوں کو دوبارہ شروع کرنے کی کوئی تحریری ضمانت نہیں دی جائے گی۔
انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق مذاکرات میں شامل تینوں ثالثوں مصر، قطر اور امریکہ نے حماس کو زبانی ضمانت دی ہے کہ مذاکرات جاری رہیں گے اور یہ تینوں ایک معاہدے کے لیے دباؤ ڈالیں گے۔ ابتدائی چھ ہفتوں کی ونڈو کے گزرنے سے پہلے دوسرے اور تیسرے مرحلے کو نافذ کیا جائے گا۔
دوسرے مرحلے کا کیا منصوبہ ہے؟
اگر اسرائیل یہ طے کرتا ہے کہ دوسرے مرحلے کے لیے شرائط پوری ہو گئی ہیں، تو حماس اسرائیلی جیلوں کے نظام میں قید مزید فلسطینیوں کی رہائی کے بدلے میں باقی تمام قیدیوں، زیادہ تر مرد فوجیوں کو رہا کر دے گی۔ اس کے علاوہ، موجودہ دستاویز کے مطابق، اسرائیل غزہ سے اپنے ’مکمل انخلا‘ کا آغاز کرے گا۔
تاہم یہ شرائط، جن پر اسرائیلی کابینہ کی طرف سے ووٹنگ ہونا باقی ہے، اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتیاہو کی کابینہ کے بہت سے انتہائی دائیں بازو کے ارکان کے بیان کردہ عہدوں سے متصادم ہیں، جن پر وہ حمایت کے لیے انحصار کرتے ہیں۔ نیتن یاہو کے اپنے ماضی کے عہدوں کے طور پر، جس میں وہ نمائندہ ہیں۔
تیسرا مرحلہ
تیسرے مرحلے کی تفصیلات ابھی تک واضح نہیں ہیں۔
مسودے کے مطابق، اگر دوسرے مرحلے کی شرائط کو پورا کیا جائے تو تیسرا مرحلہ بین الاقوامی نگرانی میں تین سے پانچ سالہ تعمیر نو کے منصوبے کے بدلے میں باقی ماندہ اسیروں کی لاشیں دیکھے گا۔
فی الحال اس بات پر کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے کہ جنگ بندی کے بعد غزہ کا انتظام کون کرے گا۔ امریکہ نے ایسا کرنے کے لیے فلسطینی اتھارٹی کے ایک اصلاحی ورژن پر زور دیا ہے۔
دوروز قبل امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہاتھا کہ جنگ کے بعد کی تعمیر نو اور گورننس فلسطینی اتھارٹی کو ’بین الاقوامی شراکت داروں‘ کو مدعو کرتی ہے کہ وہ اہم خدمات کو چلانے اور علاقے کی نگرانی کے لیے عبوری گورننگ اتھارٹی کے ساتھ کھڑے ہوں۔
انہوں نے واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک، اٹلانٹک کونسل میں ایک تقریر میں کہا، دیگر شراکت دار، خاص طور پر عرب ریاستیں، مختصر مدت میں سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لیے افواج فراہم کریں گی۔
اس طرح کے منصوبے کے کام کرنے کے لیے، اسے سعودی عرب سمیت عرب ریاستوں کی حمایت کی ضرورت ہوگی، جنہوں نے کہا ہے کہ وہ صرف اس صورت میں اس اسکیم کی حمایت کریں گے جب فلسطینی ریاست کا کوئی راستہ ہو۔
یہ اسرائیلی قانون سازوں کے لیے تنازع کا ایک اور نکتہ فراہم کرتا ہے، حالانکہ اسرائیل نے 1990 کی دہائی کے اوسلو معاہدے میں دو ریاستی حل پر اتفاق کیا تھا۔