جیل کی سلاخوں کے پیچھے قیدی عید کیسے مناتے ہیں؟

اتوار 23 اپریل 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

یوں تو کراچی کی سینٹرل جیل میں 2 ہزار 400 قیدیوں کی گنجائش ہے لیکن اس مرتبہ وہاں 6 ہزار 400 قیدی عید منا رہے ہوں گے۔

عید وہ تہوار ہے جس میں ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ یہ خوشیوں بھرے لمحات اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ گزارے لیکن جب بات ہو ان لوگوں کی جو سالہا سال سے قید وبند میں ہوں تو ان کے لیے یہ دن گزارنا قدرے مشکل ہوجاتا ہے۔

کراچی کی سینٹرل جیل میں یوں تو ہر تہوار ہی منایا جاتا ہے اور اس حوالے سے قیدیوں کو سہولیات بھی فراہم کی جاتی ہیں لیکن قید پھر قید ہی ہوتی ہے جہاں کُھل کر آزادی سے کوئی خوشی نہیں منا سکتا۔

سینٹرل جیل میں 15 سال سے قید عدنان قریشی کہتے ہیں کہ ’جیل اگر سونے کی بھی ہو تب بھی وہ جیل ہی ہوتی ہے، تہوار تو یہاں بھی منایا جاتا ہے اور سب کچھ ہوتا ہے سوائے اپنی اپنی مرضی و خواہش کے‘۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ماں باپ، بہن بھائی اور دیگر رشتہ داروں کے بنا بھلا کوئی کیسے خوشی منا سکتا ہے؟

عدنان کا کہنا ہے کہ ’صرف چند منٹ کے غصے اور رشتوں میں بے احتیاطی پر قابو پالیا جائے تو انسان برسوں طویل اس قید سے بچ سکتا ہے اور یہ سب سے بڑی حقیقت ہے کہ اپنے رشتہ داروں اور ماں باپ کے بیچ رہ کر زندگی کا مزہ ہی الگ ہے‘۔

سپرانٹینڈینٹ جیل حسن سہتو نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہماری کوشش رہتی ہے کہ عید جیسے تہوار کو قیدیوں کے ساتھ بھرپور انداز میں منایا جائے اور اس سلسلے میں خاص کھانوں کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے‘۔

جیل میں عید کی ایک خاص بات کا تذکرہ کرتے ہوئے حسن سہتو کا کہنا تھا کہ ’عید والے دن قیدیوں کے اہلِ خانہ ان کے لیے مختلف کھانوں کے ساتھ ساتھ نئے کپڑے بھی لے کر آتے ہیں اور ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور یہی ان قیدیوں کی اصل عید ہوتی ہے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’4 بلاکس کی مساجد میں عید کی نماز ادا کی جاتی ہے جس کے بعد قیدی ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور ناشتے میں شیر خورمہ سمیت وہ اشیا بھی ہوتی ہیں جو عام طور پر اس دن گھروں میں بنائی جاتی ہیں یوں عید کا ایک اسپیشل مینیو ہوتا ہے‘۔

سینٹرل جیل کے 6 ہزار 400 قیدیوں کا تعلق ہر نسل اور ملک کے ہر علاقے سے ہے اور یہاں نئی دوستیاں اور تعلقات بنتے ہیں۔ جیل کی چار دیواری کے اندر ایک الگ دنیا آباد ہے جہاں کوئی محدود تو کوئی لامحدود وقت کے لیے آتا ہے۔ عادی مجرم اسے اپنا دوسرا یا پہلا گھر سمجھتے ہیں تو دوسری جانب اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی کوششیں کرنے والوں کی بھی یہاں عمریں بیت جاتی ہیں۔

کوئی قیدی جیل کو اچھا سمجھے یا بُرا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بہ حالت مجبوری ان قیدیوں کو ایک نہ ایک دن اس قید خانے سے انسیت ضرور ہوجاتی ہے۔ کوئی یہاں سے سدھر کر اس معاشرے کا باعزت شہری بن کر نکلتا ہے تو کوئی مزید بگڑ کر معاشرے کے لیے مزید تباہی لاتا ہے لیکن کچھ قیدی ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں اندر آنے کے بعد باہر کی دنیا پھر دیکھنا نصیب ہی نہیں ہوتا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp