مجھے چند مہینے اور مل جاتے تو لاپتا افراد کی تعداد صفر ہو جاتی، ریٹائرڈ جسٹس جاوید اقبال

جمعرات 23 جنوری 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

لاپتا افراد کمیشن کے سابق سربراہ جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال نے کہا کہ اگر وہ اس عہدے پر چند مہینے مزید رہ جاتے تو لاپتا افراد کی تعداد صفر رہ جاتی۔

وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب میں سنہ 2011 میں لاپتا افراد کمیشن کا سربراہ مقرر ہوا تو اس وقت لاپتا افراد کی تعداد 12 ہزار سے زائد تھی اور جب میں نے چھوڑا تو یہ تعداد 2200 رہ گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس ریٹائرڈ فقیر محمد کھوکھر لاپتا افراد کمیشن کے سربراہ مقرر

واضح رہے کہ جبری گمشدگی گزشتہ 2 دہائیوں سے پاکستان میں چلا آ رہا ایک سنگین مسئلہ ہے اور اس مسئلے کے تدارک کے لیے وفاقی حکومت نے سنہ 2011 میں لاپتا افراد کمیشن قائم کیا جس کے پہلے سربراہ کے طور پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے ریٹائرڈ جج، جسٹس جاوید اقبال کو تعینات کیا گیا تھا۔

سنہ 2011 سے لے کر اب تک جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال ہی اس کمیشن کی سربراہی کرتے رہے۔ اس کمیشن کی سربراہی کے ساتھ ساتھ وہ سال 2017 سے سال 2022 تک چیئرمین نیب بھی رہے اور تنازعات کا شکار بھی رہے۔

اب سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے علم میں لایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت نے جسٹس (ریٹائرڈ) جاویداقبال کی جگہ جسٹس (ریٹائرڈ) فقیر محمد لاپتا افراد کمیشن کے سربراہ مقرر ہوچکے ہیں۔

انسانی المیے کو سیاسی رنگ دینا انتہائی افسوسناک ہے، جسٹس جاوید اقبال

جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ وہ اس دور کو بہترین اور یادگار گردانتے ہیں جب وہ لاپتا افراد کمیشن کے چیئرمین تھے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں کہ یہ میں اس وجہ سے کہہ رہا ہوں کہ میں چیئرمین تھا بلکہ یہ دعوٰی اعداد وشمار پر مبنی ہے جن کی رپورٹ ہر مہینے سپریم کورٹ میں جمع کروائی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر میں اس عہدے پر چند مہینے مزید رہتا تو جون تک لاپتا افراد کی تعداد صفر رہ جاتی۔

مزید پڑھیے: لاپتا افراد کمیشن، گزشتہ 6 سالوں کی نسبت اس سال سب سے کم شکایات موصول

واضح رہے کہ لاپتا افراد کمیشن کے اعداد و شمار پر لوگ شکوک و شہبات کا اظہار کرتے ہیں کہ یہ اعداد و شمار صرف نظر کا دھوکا ہیں اور جن شکایات کو حل شدہ دکھایا جاتا ہے وہ دراصل ازالہ طلب ہی ہوتی ہیں۔ اس پر جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں کہ ایک آدمی کسی کا مقروض تھا لیکن وہ خود اپنی مرضی سے ہی کہیں غائب ہو گیا تو اب اس میں لاپتا افراد کمیشن کیا کر سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ لاپتا افراد کی باقاعدہ تعریف قانون میں دی گئی ہے کہ جس کے تحت یہ ایسے افراد ہوتے ہیں جن کو قانون نافذ کرنے والے یا سیکیورٹی ادارے اٹھا کر لے گئے ہوں۔

جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ ایک شخص کوئٹہ سے لاپتا افراد کا مقدمہ لے کر چلا اور اس کا دعوٰی تھا کہ کل 55 ہزار افراد لاپتا ہیں تاہم جب وہ راولپنڈی ریلوے اسٹیشن اترا تو یہ تعداد 7 ہزار رہ گئی اور جب مجھ سے ملا تو تعداد 4 ہزار تھی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اس سے 10 مرتبہ گمشدہ افراد کے شناختی کارڈز اور رہائشی پتے کے بارے میں دریافت کیا لیکن اس نے کچھ نہیں بتایا۔

مزید پڑھیں: کوئٹہ، نامعلوم افراد نے لاپتا افراد کے کیمپ کو آگ لگادی

انہوں نے کہا کہ انسانی المیے پر سیاست کرنا افسوسناک ہے ہم نے ملکی مفاد اور اداروں کے تقدس کا خیال رکھا ہے لیکن کبھی بھی شکایت کنندہ کے حقوق پر سمجھوتا نہیں کیا۔

لاپتا افراد کمیشن کے نئے چیئرمین جسٹس (ریٹائرڈ) فقیر محمد کے بارے میں بات کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ مجھے ان کی ذہانت، دیانت اور معاملہ فہمی کے بارے میں کوئی شک نہیں، وہ سپریم کورٹ میں میرے ساتھ جج تھے۔

لاپتا افراد کمیشن کے حالیہ اعدادو شمار

لاپتا افراد کمیشن کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق نومبر 2024 تک لاپتا افراد کے کل 10 ہزار 438 کیسز سامنے آئے تھے جن میں سے نمٹائے گئے کیسز کی کل تعداد 8 ہزار 172 ہے۔ لاپتا افراد کے غیر حل شدہ کیسز کی تعداد 2 ہزار 266 رہ گئی ہے۔

دستاویز کے مطابق سال 2018 میں لاپتا افراد کمیشن کو ایک ہزار 98 جبری گمشدگیوں کی درخواستیں موصول ہوئیں جبکہ سال 2024 میں موصول ہونے والی درخواستیں 350 ہیں۔ گزشتہ 7 برسوں میں لاپتا افراد کی درخواستیں سب سے زیادہ سال 2021 میں سامنے آئیں جن کی تعداد ایک ہزار 460 ہے۔

یہ بھی پڑھیے: لاپتا افراد کے نام پر بلوچ لبریشن آرمی کے ڈرامے کا ڈراپ سین

کمیشن کو سال 2019 میں 800 درخواستیں موصول ہوئیں، سال 2020 میں 415، سال 2021 میں ایک ہزار 460، سال 2022 میں 860، سال 2023 میں 885 جبکہ گزشتہ برس 30 نومبر تک کے ڈیٹا کے مطابق 350 درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔

جسٹس جاوید اقبال کے تنازعات

جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال بطور چیئرمین نیب اور بطور چیئرمین لاپتا افراد کمیشن بہت سے تنازعات کا شکار رہے اور نمایاں طور پر ان کے ساتھ جنسی ہراسگی کے 2 واقعات وابستہ ہیں۔

اس کے علاوہ بطور چیئرمین نیب ان پر اس دور کی اپوزیشن قیادت پر بے بنیاد مقدمات بنانے کے الزامات بھی لگتے رہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp