سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے لاپتا افراد کیس کی سماعت کی۔ ایڈیںشنل اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ حکومت نے جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی جگہ جسٹس ریٹائرڈ فقیر محمد کھوکھر کو لاپتا افراد کمیشن کا سربراہ مقرر کردیا ہے۔ حکومت قانون سازی کے ذریعے لاپتا افراد ٹریبونل بنانا چاہتی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ لاپتا افراد ٹریبونل کے لیے تو قانون سازی کرنا پڑے گی۔ ایڈیںشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ قانون سازی کے لیے کابینہ کمیٹی کام کر رہی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کتنے عرصہ میں قانون سازی کا عمل مکمل ہوگا؟ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ قانون تو پہلے سے موجود ہے، کسی کو لاپتا کرنا جرم ہے۔ کسی نے جرم کیا ہے تو ٹرائل کریں، جرم نہیں کیا تو اسے چھوڑ دیں۔
مزید پڑھیں: لاپتا افراد کمیشن، گزشتہ 6 سالوں کی نسبت اس سال سب سے کم شکایات موصول
ایڈیںشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت ایک مرتبہ لاپتا افراد ایشو کو سیٹ کرنا چاہتی ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اگر مسئلہ حل کرنا ہوتا تو لاپتا افراد کا معاملہ حل ہو چکا ہوتا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ابتک کمیشن نے کتنی لاپتا افراد کی ریکوریاں کی ہیں، کیا بازیاب ہونے والے آکر بتاتے کہ وہ کہاں تھے؟ رجسٹرار لاپتا افراد کمیشن نے بتایا کہ بازیاب ہونے والے نہیں بتاتے وہ کہاں پر تھے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہم امید ہی کرسکتے ہیں کہ مسئلہ حل کیا جائے گا، پارلیمنٹ کو قانون سازی کا نہیں کہہ سکتے۔ عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔