گوگل اور الفابیٹ کے چیف آپریٹنگ آفیسر سندر پچائی کہتے ہیں کہ ہر کمپنی کی ہر پروڈکٹ مصنوعی ذہانت کی تیز رفتار ترقی سے متاثر ہو گی۔ تاہم انہوں نے متنبہ کیا ہے کہ معاشرے کو ان ٹیکنالوجیز کے لیے تیاری کرنے کی ضرورت ہے جنہیں پہلے ہی جاری کیا جاچکا ہے۔
گوگل نے گزشتہ ماہ اپنا مصنوعی ذہانت یعنی آرٹیفیشل انٹیلیجنس چیٹ بوٹ ’بارڈ‘ کا عوامی اجرا ایک تجرباتی پروڈکٹ کے طور پر کیا تھا۔ گوگل کا یہ قدم مائیکروسافٹ کی پیروی میں تھا جس نے جنوری میں اپنے سرچ انجن میں جی پی ٹی ٹیکنالوجی شام کرنے کا اعلان کیا تھا۔
امریکی ٹیلی ویژن سی بی ایس کے مقبول ترین شو سکسٹی منٹس میں انٹرویو کے دوران گوگل کے سربراہ سندر پچائی نے بتایا کہ ’بارڈ‘ فعالیت کے ساتھ ساتھ کے ساتھ ایک بلیک باکس ہے جسکو سمجھنا مشکل ہے کہ یہ کب اور کیسے رد عمل دے گا۔
جس پر ٹی شو کے میزبان نے حیرت سے دریافت کیا کہ کیسے ممکن ہے کہ آپ اسکو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکیں گے، جس پر سندر پچائی کا کہنا تھا کہ بالکل اسی طرح جیسے ہم آج تک انسانی دماغ کو بھی مکمل طور پر نہیں سمجھ پائے کہ وہ کیسے چلتا ہے۔
مصنوعی ذہانت یعنی آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے جڑے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے انٹرویو کے دوران سندر پچائی نے کہا کہ اے آئی ٹیکنالوجی کےتیزی سے پھیلاؤ کے فوائد اپنی جگہ لیکن اگر اس ٹیکنالوجی کو غلط انداز سے استعمال کیا گیا تو یہ بہت نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔
’یہی وجہ ہے کہ میں اس حوالے سے سوچنے پر مجبور ہوں۔۔۔ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کا یہ پہلو مجھے رات بھر جگائے رکھتا ہے۔‘
سندر پچائی کے مطابق مصنوعی ذہانت کے بڑھتے اثرات معاشرے کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ مصنوعی ذہانت کے اثرات سے جتنا بچا جا سکتا ہے خود کو بچائیں۔
گوگل کے سربراہ کے مطابق آرٹیفیشل انٹیلیجنس ٹیکنالوجی کے ممکنہ نقصان دہ اثرات سے بچنے کے لیے اس شعبے کو ریگولیٹ کرنا بہت ضروری ہے۔
’ہمیں اس طرح کی ٹیکنالوجیز کے لیے اب تیار ہو جانا چاہیے اور اس کے لیے بہترین قانون سازی کرنا بہت ضروری ہے۔ اگر یہ نا کیا گیا تو جعلی خبروں اور تصاویر کا مسئلہ اتنا بڑھ جائےگا جو معاشرے کے لیے بہت نقصان کا باعث ہو سکتا ہے۔‘
سندر پچائی کا موقف تھا کہ معاشرہ ابھی مصنوعی ذہانت کی اس قدر تیز رفتار ترقی کے لیے تیار ہی نہیں ہے۔ آنے والے وقتوں میں یہ ٹیکنالوجی ہر کمپنی کے تمام شعبوں پر اثر انداز ہو گی۔ اسی لیے اس سے متعلق قانون سازی کا اختیار صرف اسکو بنانے والی کمپنی کو نہیں دیا جانا چاہیے۔
’ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ مصنوعی ذہانت کی یہ ٹیکنالوجی بہت سارے شعبوں میں ملازمتوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، جن میں مصنف، اکاؤنٹنٹ، آرکیٹیکٹ یہاں تک کہ سافٹ ویئر انجنیئر بھی شامل ہیں۔ مثال کے طور پر آئندہ 5 سے 10 سال میں ریڈیو لوجسٹ کا کام مصنوعی ذہانت کی مرہون منت ہوگا۔
سند پچائی کا کہنا تھا کہ ہمیں چیٹ جی پی ٹی سے سبق سیکھنا چاہیئے۔ ایسی زیادہ طاقتور ٹیکنالوجی کو اس وقت تک متعارف نہیں کرانا چاہیے جب تک معاشرہ اس کے لیے تیار نہ ہو۔
سندر پچائی کے مطابق اس ٹیکنالوجی کا زیادہ استعمال ڈیپ فیک ویڈیوز کی تیاری کے لیے کیا جا سکتا ہے۔ اس سے معاشرے میں غلط خبروں اور معلومات میں اضافہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کو ریگولیشن کی ضرورت ہے۔