بلوچستان کا صوبائی دارالحکومت کوئٹہ جہاں گزشتہ برس دہشتگردی کی لپیٹ میں رہا وہیں سال 2025 بھی عوام کے لئے نئی مشکلات لے کر آیا ہے۔ امن و امان کی مخدوش صورتحال کے بعد شہر اب سٹریٹ کرائم کی بھی زد میں آگیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:کوئٹہ: بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے سے انکار پر 5 افراد گرفتار
محکمہ پولیس بلوچستان کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے پہلے ماہ کے دوران کوئٹہ میں قتل کے 10،اغواءکے 19،ڈکیتی کے 4،چوری کے 18 جبکہ لوٹ مار کے21 واقعات رپورٹ ہوئے۔
اس کے علاوہ غیرت کے نام پر قتل کا ایک ،گاڑیاں چھیننے اور چوری کے 6 جبکہ موٹر سائیکل چوری اور چھیننے کے 97 واقعات رپورٹ ہوئے۔
جرائم کے ان بڑھتے واقعات کے پیش نظر پولیس کی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پولیس نے ماہ جنوری میں مختلف واقعات میں541 افراد کو نامزد کیا جبکہ 300 سے زائد افراد گرفتار ہوئے۔
پہلے ماہ کے دوران 6 گاڑیاں جبکہ 29 موٹر سائیکلیں برآمد کی گئیں، جرائم کے ان بڑھتے واقعات پر متاثرہ افراد کے ساتھ ساتھ عام شہری بھی عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا ہیں۔
ایس ایس پی آپریشنز کوئٹہ کا اعتراف
ایس ایس پی آپریشنز کوئٹہ محمد بلوچ کے مطابق چھینا جھپٹی کی وارداتوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے، لیکن پولیس نے بروقت کارروائیاں کر کے چوری شدہ مال کو ریکور بھی کیا ہے۔
ایس ایس پی آپریشنز کوئٹہ کے مطابق گزشتہ ماہ سر یاب میں ہو نے والی چوری کی واردات میں ہمیں کا میابی ملی۔ چند روز قبل گاڑی چھینے والوں کو بھی قانون کے شکنجے میں لے لیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ محکمہ پولیس عوام سے اپیل کرتی ہے کہ ان واقعات کو رپورٹ کریں عوام اور پولیس مل کر ان عناصر کو ختم کر سکتے ہیں۔
دوسری جانب عوام کا مؤقف ہے کہ شہر میں دہشتگردی کی وجہ سے عام آدمی خود کو محفوظ تصور نہیں کرتا تھا، ایسے میں سونے پر سہاگا یہ ہوا کہ شہرمیں اسٹریٹ کرائم کے واقعات بھی بڑھنے لگے۔
بات کریں اگر شہر میں چھینا چھپٹی کی وارداتوں کی تو اہم شاہراہیں راہزنوں کا گڑھ بنی ہوئی ہیں، جبکہ شہر کے غیر آباد علا قے رات کے اوقات میں نو گو ایریا بن جا تے ہیں۔
شہر میں سیکورٹی کی صورتحال تو یہ ہے کہ اربوں روپے سے سیف سٹی پروجیکٹ کے نام پر لگائے گئے کیمروں میں متعدد ناکارہ ہیں۔ ایسے میں اسٹریٹ کرائم سے تحفظ کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے؟ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہیے کہ رات کے اوقات میں گشت کو بڑھا یا جائے تاکہ چوری چکاری کے واقعات کم ہو سکیں۔