کیا عید کے بعد سیاسی درجہ حرارت میں کمی آسکے گی؟

اتوار 23 اپریل 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان کی سیاسی صورتحال گزشتہ ایک سال سے غیر یقینی کی کیفیت سے دوچار ہے۔ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے بعد قائم ہونے والی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی اتحادی حکومت کو مسلسل سیاسی اور اقتصادی بحران کا سامنا ہے جبکہ خیبر پختونخوا اور پنجاب کی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد 90 روز میں انتخابات نہ ہونے کی صورت میں آئینی بحران کا بھی سامنا ہے۔

90 روز میں انتخابات کروانے کا معاملہ عدالت پہنچنے سے پہلے سیاسی محاذ آرائی کا سبب بنا ہوا تھا مگر سپریم کورٹ کی انٹری کے بعد اب عدالتی محاذ آرائی کا آغاز بھی ہوچکا ہے اور عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں ملک عدالتی بحران کی لپیٹ میں بھی آسکتا ہے۔

کیا عید کے بعد سیاسی درجہ حرات میں کمی آسکے گی؟

ملک کی جاری سیاسی کشیدگی کی شدت کو کم کرنے کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان تمام اسٹیک ہولڈرز سے درخواست کرچکے ہیں اور اسی سلسلے میں سپریم کورٹ نے 27 اپریل تک تمام سیاسی جماعتوں کو ایک روز انتخابات کروانے پر متفق ہونے کا وقت دیا ہے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے بھی حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان پُل کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور عید کے بعد وہ کُل جماعتی کانفرنس کا ارادہ رکھتے ہیں۔

سپریم کورٹ کی جانب سے 14 مئی کو انتخابات کروانے کی تلوار کی موجودگی میں تمام جماعتوں کو مذاکرات کی ٹیبل پر لانے سے ملک میں سیاسی کشیدگی کم ہونے کا امکان تو ہوگیا ہے لیکن تاحال کچھ معاملات ہیں جو اب بھی طے ہونے باقی ہیں۔

کیا مذاکرات کامیاب ہوں گے؟

تحریک انصاف کے ذرائع کے مطابق موجودہ سیاسی صورتحال میں مذاکرات کی کامیابی کا انحصار انتخابات کی تاریخ پر ہی ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین اس حوالے سے واضح کرچکے ہیں کہ مذاکرات صرف انتخابات کے حوالے سے ہی ہوں گے۔

مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں تحریک انصاف نے سڑکوں پر نکلنے کا اعلان کررکھا ہے جس میں نہ صرف انتخابات کروانے کے لیے دباؤ ڈالا جائے گا بلکہ تحریک انصاف اپنی انتخابی مہم کا آغاز بھی کرے گی۔

تحریک انصاف کا مؤقف ہے کہ ایک روز ملک بھر میں انتخابات کروانے کے لیے قومی اسمبلی بھی فوری طور پر تحلیل کی جائے جبکہ چاروں صوبوں اور وفاق میں نئی نگراں حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے۔

مذاکرات میں دوسری بڑی رکاوٹ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا عمران خان سے مذاکرات نہ کرنے کا سخت مؤقف ہے۔ جے یو آئی کے سربراہ یہ واضح کرچکے ہیں کہ وہ عمران خان سے مذاکرات نہیں کریں گے اور سپریم کورٹ زبردستی عمران خان سے مذاکرات کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے کچھ حلقوں میں بھی تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کی مخالفت کی جارہی ہے اور اس کا اظہار مریم نواز اپنی ٹویٹ کے ذریعے بھی کرچکی ہیں، جس میں انہوں نے لکھا کہ ‏مذاکرات یا بات چیت سیاسی جماعتوں سے ہوتی ہے، دہشتگردوں اور فتنہ پھیلانے والوں سے نہیں۔ یہ بات یاد رکھیں۔

پاکستان پیپلزپارٹی نے بھی سیاسی جماعتوں سے رابطوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)، مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی کے وفد کے ساتھ علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کرچکی ہیں۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری ایک انٹرویو میں ملک میں قبل از وقت انتخابات کا اشارہ دے چکے ہیں اور اس سلسلے میں ہی پیپلز پارٹی کی قیادت مختلف سیاسی جماعتوں سے رابطے کررہی ہے۔

دوسری جانب سپریم کورٹ آف پاکستان بھی تمام سیاسی جماعتوں کو ایک مؤقف پر اتفاق کرنے کی صورت میں 14 مئی کو انتخابات کروانے کا حکم نامہ واپس لینے کا اشارہ دے چکی ہے جبکہ دوسری صورت میں 14 مئی کے حکم نامے کی تلوار لٹکتی رہے گی اور سپریم کورٹ کے حکم نامے کے مطابق فنڈز کی عدم فراہمی یا دیگر کسی جواز کی وجہ سے عملدرآمد نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کے لیے بھی خبردار کرچکی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp