صدر مملکت آصف علی زرداری نے مقدس فاطمہ بنام مبشر مختار کے مقدمے میں وفاقی محتسب برائے انسدادِ ہراسیت (فوسپاہ) کے فیصلے کی توثیق کر دی ہے۔ صدرِ پاکستان کا یہ فیصلہ پاکستان میں خواتین کے لیے محفوظ اور ہراسگی سے پاک کام کا ماحول یقینی بنانے کے لیے فوسپاہ کے عزم کی تصدیق کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسیت کیجانب سے پائیڈ کے وائس چانسلر پر 5 لاکھ روپے جرمانہ، وجہ کیا بنی؟
جمعرات کو وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسیت سیکرٹریٹ سے جاری کر دہ بیان کے مطابق یہ کیس وزیراعظم کے یوتھ ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام کے دوران پیش آئے واقعے سے متعلق تھا، جہاں ملزم مبشر مختار کو کام کی جگہ پر ہراسگی اور صنفی امتیاز کا مرتکب پایا گیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ تفصیلی تحقیقات کے بعد فوسپاہ نے ملزم پر معمولی سزائیں عائد کیں، جن میں 3 سال کے لیے انکریمنٹ روکنا اور مدعیہ کو ہراسگی کے خلاف تحفظ کے قانون 2010 کے تحت ایک لاکھ روپے بطور ہرجانہ ادا کرنا شامل تھا۔
یہ بھی پڑھیں: خاتون لیکچرر کو ہراساں کرنے پر وفاقی اردو یونیورسٹی کے پروفیسر نوکری سے برطرف، جرمانہ عائد
فوسپاہ کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے ملزم نے صدر پاکستان کے سامنے نظرثانی کی درخواست دائر کی، تاکہ عائد کردہ سزاؤں کو کالعدم قرار دیا جاسکے۔ تاہم تفصیلی جائزے اور دونوں فریقین کے مؤقف کو سننے کے بعد صدر پاکستان نے ملزم اپیل مسترد کر دی اور اس بات پر زور دیا کہ ملزم کی جانب سے واقعے کی مکمل تردید حقیقت کو چھپانے کی کوشش تھی۔
اس فیصلے نے وفاقی محتسب فوزیہ وقار کے حکم کو مزید مستحکم کر دیا اور اس امر پر زور دیا کہ کام کی جگہ پر ہراسگی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔ فوسپاہ اپنے مشن پر ثابت قدم ہے کہ ملازمین، بالخصوص خواتین، کو کام کی جگہ پر ہراسگی سے محفوظ رکھا جائے اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: صدر مملکت آصف علی زرداری کا خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے عالمی دن پر پیغام
یہ فیصلہ انصاف کے قیام میں ایک اہم سنگِ میل ہے اور واضح پیغام دیتا ہے کہ کام کی جگہ پر ہراسگی کے کسی بھی فعل کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔