بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر ڈاکٹر محمد یونس کا کہنا ہے کہ سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی چاہے وہ کسی بھی مقام پر ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: کیا بنگلہ دیش کی ’تحریک انصاف‘ کامیاب ہو پائے گی؟
اسکائی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حسینہ واجد بنگلہ دیش میں موجود ہوں یا کہیں اور ان پر مقدمہ لازمی طور پر چلایا جائے گا۔
ڈاکٹر یونس نے کہا کہ ٹرائل نہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بس مسئلہ صرف یہ ہے کہ آیا وہ ان کی موجودگی میں چلایا جاتا ہے یا غیر موجودگی میں۔
انہوں نے کہا کہ حسینہ واجد کے ساتھیوں، خاندان کے افراد اور کلائنٹس سب سے تفتیش کی جائے گی۔
ڈاکٹر یونس نے انکشاف کیا کہ بنگلہ دیش نے باضابطہ طور پر بھارت سے حسینہ کی حوالگی کی درخواست کی تھی لیکن نئی دہلی کی جانب سے اس کا باضابطہ جواب نہیں ملا۔
انہوں نے مزید کہا کہ قانونی طور پر بھارت اسے حوالے کرنے کا پابند ہے۔
مزید پڑھیے: جماعت اسلامی کا بنگلہ دیش کے قیام سے اب تک کے واقعات پر وائٹ پیپر شائع کرنے کا مطالبہ
’ہاؤس آف مررز‘ کے نام سے مشہور متنازعہ حراستی مرکز کے دورے کے حوالے سے ڈاکٹر یونس نے کہا کہ وہاں حالات حیران کن اور بدترین تھے۔
انہوں نے بھارت کے ساتھ بنگلہ دیش کے تعلقات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ حسینہ واجد کے معاملے میں پیچیدگیوں کے باوجود بھارت کے ساتھ اسٹریٹجک اہمیت ہے۔
ماضی کے حکومتی اقدامات کے متاثرین کے لیے انصاف کے حوالے سے ڈاکٹر یونس نے اعتراف کیا کہ اس سلسلے میں کوششیں جاری ہیں تاہم ان کی قلیل مدتی انتظامیہ سست قانونی عمل کی وجہ سے مکمل احتساب کی ضمانت نہیں دے سکی۔
انہوں نے حسینہ کے خلاف بدعنوانی کے سنگین الزامات کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ بنگلہ دیش میں ان کے مالی معاملات اور اثاثوں کی مکمل جانچ کی جائے گی۔
مزید پڑھیں: بنگلہ دیش: ناہید اسلام ایڈوائزری کونسل سے مستعفی، نئی سیاسی جماعت کی سربراہی کریں گے
روہنگیا بحران پر ڈاکٹر یونس نے تصدیق کی کہ بنگلہ دیش مہاجرین کی واپسی کے لیے محفوظ زون قائم کرنے کے لیے میانمار کے باغی گروپوں کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ دنیا کے سب سے بڑے پناہ گزین کیمپ کاکس بازار میں بڑھتے ہوئے تشدد، منشیات کی تجارت اور نیم فوجی سرگرمیوں کی وجہ سے کشیدگی برقرار ہے۔