“ارے میاں یہ دنیائے موسیقی کے زوال کا عروج نہیں تو اور کیا ہےکہ اب ہم سُر،تال اور راگ کی حرمت کا رونابھی نہیں روسکتے۔ظاہر ہےاس کے لیےکسی سُرشناس کا ہونا بہت ضروری ہے ۔مگر کیا کیجیے کہ ہماری نازک سماعتوں کے لیےموسیقی کے نام پر’یہ جو پیارا پی ایس ایل ہے’جیسا بھاری بھرکم گانا ہی رہ گیا تھا، جو ہماری روحانی اذیت میں’حصہ بقدر جثہ’کے مصداق خاطرخواہ اضافے کا باعث بن رہا ہے،اور ہم اپنے کانوں کا بوجھ کسی کے سامنے ہلکا بھی نہیں کرسکتے۔
کبھی کبھارغسل خانے میں بے سُرے گانے،گانے کی اتنی بھاری سزا ملے گی میاں یہ تو ہم نے سوچا بھی نہیں تھا۔”بات کرتے ہوئے سات سُروں کا سارا درد پروفیسر چراغ الدین شمسی کی ٹھوڑی کی سمت جھکی ہوئی مونچھوں میں جھلکنے لگا،عام حالات میں جن کی نوکیں،ان کے کانوں کی طرف تنی ہوتی تھیں۔
“یہ جو پیارا پی ایس ایل ہے” سے اگرچہ بات کچھ کچھ واضح ہوچلی تھی مگر پھر بھی ہم نے ان سے پوچھنا مناسب سمجھا کہ شاید اس سے ان کی مونچھوں کابوجھ کچھ کم ہوجائے:”نصیب دوستاں، آپ کچھ افسردہ نظر آرہے ہیں پروفیسر صاحب! ہوا کیاہے؟کچھ تفصیل اگر اس اجمال کی بیان کردیں تو یہ خاکسار آپ کا ممنون احسان ہوگا۔””دل کے پھپھولے جلانے سے کیا حاصل،بہ ہر حال یہ بتاؤ میاں تم نے چاہت فتح علی خان کا نام سنا ہے؟”
“ہوگا کوئی ایسا بھی کہ ‘چاہت’ کو نہ جانے؟’گائیک’ تو وہ اچھا نہیں،بدنام بہت ہے”
ہم نےحضرت غالب کی روح سے معذرت کے ساتھ، جھٹ سےشعر ان کی نذرکردیا۔
“اور کیا جانتے ہو موصوف کے بارے میں؟”پروفیسر صاحب نے شعر سن کر مونچھوں کو شمالاً جنوباً سیدھاکرتے ہوئے اگلا سوال داغ دیا۔”موسیقی کی دنیا کا معروف نام، استادچاہت فتح علی خان دور حاضر کے وہ ہردل عزیز’گلوپھاڑ’ ہیں ، جنھیں دیکھ کر بہت سارے لوگوں نے گانا گانا شروع کیا اور بہت سوں نے گانا چھوڑدیا۔
مسئلہ چھوڑنے والوں کا نہیں کہ انھوں نے تو استاد کی سُر، لے ،راگ اور تال سے کماحقہ ناواقفیت کے باعث عوامی مقبولیت کی بنا پر احتجاجاً گانا چھوڑا، کہ عوامی مقبولیت اور پذیرائی اپنی پستیوں کے اوج پر ہے۔داد تو ان لوگوں کے حوصلے کو دینی چاہیے جنھوں نے صرف یہ سوچ کر گانا شروع کردیا کہ اگر استاد چاہت فتح علی خان اپنی بے آہنگ اور ناموزوں آواز کے ساتھ ’’غنا بالجبر‘‘ کرسکتے ہیں تو عین ممکن ہے کہ ان کی بدنامی کا چراغ بھی جل اٹھے اور وہ بھی استاد چاہت فتح علی خان کی طرح رسوا ہوجائیں۔احمد مشتاق کے بقول:
خیر بدنام تو پہلے بھی بہت تھے لیکن
تجھ سے ملنا تھا کہ پر لگ گئے رسوائی کو”
واہ واہ۔”پروفیسر صاحب شعر سن کر پھڑک اٹھے اور بولے:”میاں اس کے بارے میں اور بتاؤ!””استاد کا اصل نام کاشف رانا ہے۔جب تک نصرت فتح علی خان زندہ رہے انھیں حوصلہ نہیں ہوا کہ اپنے تمام تر بےسُرے پن کے ساتھ ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرسکیں مگر ان کی آنکھیں بند ہوتے ہی انھوں نے اپنا گلا کھول کربلکہ پھاڑ پھاڑ کر یہ اعلان کیا کہ وہ نصرت فتح علی خان کو اپنا روحانی استاد مانتے ہیں۔
اسی نسبت سے وہ اپنے آپ کو چاہت فتح علی خان کہتے ہیں۔ان کی یہ ‘چاہت’ راحت فتح علی خان کو کس قدر ‘ تکلیف ‘ دیتی ہوگی اس کی بابت تو وہ(راحت فتح علی خان) ہی بتا سکتے ہیں مگر ہم یہ بات وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ جس مقدس سکون اور اعتماد سے وہ نیچے کے سُر اوپر اور اوپر کے سُراپنی بھاری بھرکم آواز کی بہ دولت مزیداوپر لے جاتے ہیں،ان کی دھمک سےنصرت فتح علی خان کی روح یقیناً اضطراب میں ہوگی۔”
“میاں کیا گرج دار تعارف کروارہے ہو تم۔”
“کیا آپ کو معلوم ہے کہ استاد چاہت کی آواز میں اتنی گھن گرج کیوں ہے؟” ہم نے ہاتھ کے اشارے سےپروفیسرصاحب کی داد کا شکریہ ادا کرتے ہوئےاچانک پوچھ لیا۔
“مجھے لگتا ہے کہ جتنی محنت موصوف نے گلا بگاڑنے پر کی ہے اگر اس کا عشر عشیر بھی گلا بنانے پر کرتے تو شاید راحت فتح علی خان کی جوتیاں سیدھی کرنے کی سعادت پا ہی لیتے، مگروہ کیا کہتے ہیں کہ،ایں سعادت بزور بازونیست۔”ایک شرارتی مسکراہٹ پروفیسر صاحب کی مونچھوں سے چھن چھن کر ان کے ہونٹوں پر گرنے لگی۔
“اصل بات یہ نہیں جناب عالی! واقعہ یہ ہے کہ استاد محترم کا سال پیدائش 1966 اور جائے پیدائش لاہور ہے۔””میاں آوازکی گھن گرج کا لاہور اور 1966 سے کیا تعلق ہے؟تم ہمیشہ ہی دورکی کوڑی لاتے ہو،بھئی بجھارتیں چھوڑو،صاف صاف کہو!”
پروفیسر صاحب آپ 1965 کی پاک بھارت جنگ اور لاہور کا محاذکیسے بھول سکتے ہیں؟ٹینکوں،توپوں،طیاروں اور گولوں کی گھن گرج بھی بھلا کوئی بھولنے والی شے ہے۔یہی گھن گرج 1966 میں ،لاہور میں پیدا ہونے والے استاد چاہت کوورثے میں ملی ہے۔”
پروفیسر چراغ الدین شمسی کے چہرے پر اب افسردگی کے بجائے مسکراہٹ تھی۔ہم نے سلسلہ کلام جاری رکھا:”استاد کے بارے میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ سمع خراشی کا شوق تو انھیں بچپن سے بلکہ پیدائش ہی سےتھا مگراس شوق کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انھوں نے 83- 1982میں شیخوپورہ میں موسیقی کے ایک گروپ میں باقاعدہ شمولیت بھی اختیار کی تھی۔”
“پھر؟” ہم نے کچھ لمحے توقف کیا تو پروفیسر صاحب نے اشتیاق کے مارے فوراً پوچھا۔”پھر کیا جی۔ظالموں نے ہمارے پیارے استاد کے فن کی قدر ہی نہیں کی اوردروغ بر گردن استاد چاہت ،انھیں یہ کہہ کر گروپ سے نکال دیا کہ ان کی ان کی آواز سنتے ہی لوگ ،کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر،پناہ کی تلاش میں بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔”
“میاں تم اس بے سُرے کو بار بار استاد کیوں کہہ رہے ہو؟”ہمارے بار باراستاد کہنے پر،پروفیسر صاحب کے لہجے میں ناگواری سی آگئی تھی۔”آپ ہی بتائیں ہمارے ہاں بسوں،لاریوں اور ٹیکسیوں کے ڈرائیوروں کو عام طور پر کیا کہا جاتا ہے؟”ہم نے جواب دینے کے بجائے الٹا ان سے سوال پوچھا۔”استاد۔” انھوں نے جھٹ سے جواب دیا۔
جی ہاں۔ جب استاد جی نے اپنے فن کی بے قدری دیکھی تو ان کا دل پاکستان سے اچاٹ ہوگیا۔انھوں نے لندن کی راہ لی اور وہاں ٹیکسی چلانے لگے۔اسی ہنرکی بہ دولت استاد کہلائے۔””ٹیکسی چلانے تک تو بات ٹھیک تھی مگر انھیں اپنی بے توقیری اور بے قدری کا اس قدر قلق تھا کہ انھوں نےبدلے کی غرض سے موسیقی کو ‘کان لیواہتھیار’بنانے کا خیال کیوں کر آیاہوگا؟”پروفیسر صاحب کا سوال حسب حال تھا۔
“سادہ سی بات ہے،سماجی ذرائع ابلاغ کی آسان ترین رسائی نے ان کی آوازپناہی کی،اور ان کی’ گلوپھاڑی ‘کے جوہردنیا پر آشکار ہونے لگے۔یعنی سماجی ذرائع ابلاغ کی بدولت ‘ بڑی سُرعت سے ہوتا ہے چمن میں بے سُرا پیدا’۔اب تویہ حال ہے کہ جہاں جہاں اردو سمجھی اور بولی جاتی ہے وہاں وہاں ان کی’کان شکن ‘آوازپہنچ رہی ہے۔”
“ہم۔مم۔مم۔مجھے لگتا ہے کہ تمھارےاستاد چاہت کی قبیل کے کسی نابغہ بے روزگار (نابغہ ناہنجار)نے مصطفیٰ زیدی کے کانوں سے دھواں بلکہ خون نکالا ہوگا جبھی تو وہ کہہ گئے ہیں:
ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا”
پروفیسر صاحب کی مونچھیں شمالاً جنوباً تنی دیکھ کر ہم نے چپ سادھ لی اور انھیں یہ بتانا مناسب نہیں سمجھا کہ یہ شعر نواب مصطفیٰ خان شیفتہ کاہے مصطفیٰ زیدی کا نہیں۔
“میاں ایک بات تو بتاؤ! موصوف کی موسیقی کا کوئی فائدہ بھی ہوسکتا ہے؟”
“جی بالکل!وقت پر اسکول، کالج اور یونیورسٹی کاکام مکمل نہ کرنے والے سست مزاج طلبا وطالبات کو،چھوٹے موٹے جرائم میں قید مجرموں کو ،ٹیلی ویژن پراردو کا تلفظ بگاڑنے والے نیوز اینکروں اور اخبارات میں اردو املا کاخیال نہ رکھنے والوں کو اگر بہ طور سزا،صرف ایک ہفتہ استاد چاہت کے گانے
سنوائے جائیں تو یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوں گ
“یہ چیز!”پروفیسر صاحب نے ہمیں دل کھول کر داد دی تو ہم دل میں یہ سوچ کرافسردہ ہوگئے کہ صرف موسیقی پر ہی کیا موقوف،ہر شعبہ زندگی کا یہی حال ہے ۔ہر شعبے میں ایک سے بڑھ کر ایک چاہت فتح علی خان بیٹھا ہوا ہے،کس کارونا رویا جائے۔یعنی
ہر شاخ پہ” چاہت” بیٹھا ہے
انجام گلستاں کیا ہوگا۔