حکمراں اتحاد نے وزیراعظم شہبازشریف پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ موجودہ حکومت کی آئینی مدت کی تکمیل پر اور ایک ہی دن ملک بھر میں انتخابات کرائے جائیں گے۔
وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت حکمراں جماعت کے اجلاس میں متفقہ طور پر یہ طے پایا کہ انتخابات کے حوالے سے جو بھی حکمت عملی طے کی جائے گی اس کی بنیاد یہی 2 نکات ہوں گے کہ حکومت کی آئینی مدت کی تکمیل ہو اور انتخابات پورے ملک میں بیک وقت منعقد ہوں۔
وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والے اجلاس میں مولانا فضل الرحمان، بلاول بھٹو، میاں افتخار، خالد مقبول صدیقی، آفتاب شیرپاؤ، خالد مگسی، آغا حسن بلوچ، چوہدری سالک حسین، طارق بشیرچیمہ، ساجد میر، حافظ عبدالکریم، مریم اورنگزیب، اعظم نذیر تارڑ، رانا ثنااللہ، قمر زمان کائرہ، ایاز صادق اور اسحاق ڈار سمیت دیگر رہنما شریک ہوئے۔
حکمراں اتحاد نے وزیراعظم شہبازشریف کی حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے درپیش صورتحال میں تمام فیصلوں کا اختیاروزیراعظم کو تفویض کیا اور یہ بھی کہا کہ شہبازشریف جو بھی فیصلہ کریں گے اتحاد کی تمام جماعتیں اس کا بھرپور ساتھ دیں گی۔
اجلاس میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ ملک میں ایک ہی دن شفاف، آزادانہ اور غیرجانبدارانہ انتخابات کے انعقاد سے متعلق حکمران جماعتیں آپس میں سیاسی مشاورت کا عمل پہلے سے ہی شروع کرچکی ہیں اور یہ نشاندہی کرتی ہیں کہ اس خالصتا ً سیاسی معاملے میں سپریم کورٹ کا پنچایت جیسا کردار غیر مناسب ہے۔
اجلاس میں سپریم کورٹ کے مورخہ 19 اپریل کے فیصلے پر بھی غور کرتے ہوئے اس پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئینی طریقہ کار کو پس پشت ڈالتے ہوئے پھر حکم جاری کردیا کہ وفاقی حکومت قومی اسمبلی کی منظوری کے بغیر رقم جاری کرے جو آئین میں دی گئی اسکیم سے متصادم ہے۔
اس موقع پر سپریم کورٹ کے فیصلے میں اس آبزرویشن پر بھی افسوس کا اظہار کیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ وزیراعظم ایوان کی اکثریت اور اعتماد کھوچکے ہیں۔ اجلاس نے اس آبزوریشن کو پارلیمان اور وزیراعظم کی توہین کے مترادف اور قابل مذمت قرار دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ پارلیمان اور ایوان کی رائے کا احترام کرے۔
اجلاس نے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار، وکیل خواجہ طارق رحیم اور ان کی اہلیہ سے متعلق سامنے آنے والی آڈیوز پر بھی غور کیا اور ان میں سامنے آنے والی گفتگو کے نکات کی شدید الفاظ میں مذمت کی ۔اس گفتگو سے سازش آشکار ہوگئی ہے۔ اجلاس نے قرار دیا کہ ان آڈیوز نے اس تاثر کو مزید تقویت دی ہے کہ فیصلے آئین کے مطابق نہیں بلکہ ذاتی عناد، پسند وناپسند کی بنیاد پر ہورہے ہیں۔ اجلاس نے آڈیوز میں ملک میں مارشل لا کے حوالے سےغیرجمہوری سوچ اور تذکرے کی بھی شدید مذمت کی۔
اتحادی جماعتوں نے فیصلہ کیا کہ تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کرنے کی کوشش کریں گے لیکن کسی کی ضد، انا اورخواہشات کے مطابق فیصلے نہیں ہوسکتے جب کہ پی ٹی آئی سے مذاکرات کے لیے پارلیمنٹری کمیٹی کا فورم استعمال کیا جائے گا۔
اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ پنجاب میں الیکشن کے لیے فنڈز کے اجرا کے حوالے سے پارلیمنٹ اپنا فیصلہ دے چکی ہے اور پارلیمنٹ کا فیصلہ مقدم ہے، سب کو اس کا احترام کرنا چاہیے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے اتحادی جماعتوں کے اجلاس کے بعد خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کا کام ثالثی کرانا نہیں، آئین کے مطابق فیصلے دینا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ابھی بھی صورتحال بڑی چیلنجنگ ہے، کل سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ جسے پارلیمان نے قبول نہیں کیا لیکن سپریم کورٹ اپنے 3 رکنی بینچ کے ساتھ معاملات آگے لے کر جانا چاہتی ہے تو اس لیے ہم دوبارہ اکٹھا ہوئے ہیں تاکہ اس پر ہم اپنے فیصلے کا دوبارہ اعادہ کریں۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ماضی قریب میں جو ہماری نشستیں ہوئیں جن میں ہمیں درپیش چیلنجز پر گفتگو ہوئی تھی اور اس کے نتیجے میں جو اقدامات اٹھائے گئے اور قومی اسمبلی اور جوائنٹ ہاؤس نے اس معاملے کو ڈیل کیا اور عدالت عظمیٰ کے حوالے سے آئینی اور قانونی اقدامات کیے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ دوسری بات یہ کہ کل اسی بینچ نے الیکشن کے متعلقہ فنڈز کے حوالے سے جواب مانگا ہے، اس سے پہلے جو سپریم کورٹ نے جو فیصلے دیے تھے پارلیمان نے ڈیل کیا اور آج بھی پارلیمان نے جو فیصلے دیے ہیں اور جو قراردادیں منظور کی ہیں۔ یہ معاملہ بھی پارلیمان چاہے گی کہ ان کے سامنے لایا جائے اور اس بارے میں اپنی رائے کو قوم کو سامنے لے کر آئیں اور ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ اس معاملے میں پارلیمان نے جو فیصلے دیے ہیں اس کا احترام کریں۔
وزیر اعظم نے کہاکہ سپریم کورٹ نے جو اپنے فیصلے میں کہا اس سے ہٹ کر میں نہیں سمجھتا کہ مجھے یا آپ کو یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ ہم سپریم کورٹ کو ضامن بنائیں، اس کو ہم ثالثی کا حق دیں، یہ ان کا کام نہیں ہے، پنچایت ان کا کام نہیں ہے، ان کا کام آئین و قانون کے مطابق فیصلے دینا ہے، لہٰذا اس بارے میں کہ ایک دن الیکشن ہونے چاہییں اور کب ہونے چاہییں اس بارے میں اتحادی جماعتوں میں تو مکمل ایکا اور اتفاق ہے کہ 13 اگست کو پارلیمان کی مدت ختم ہوتی ہے اور اس کے بعد 90 دن شامل کیے جائیں تو اکتوبر نومبر میں وہ تاریخ بنتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اتحادی جماعتیں متفق ہیں کہ عام انتخابات مقررہ وقت پر ہوں اور اتحادی حکومت ملک کو درپیش چیلنجز سے نکالنے کے لیے پرعزم ہے اور تمام فیصلے ملک کے وسیع تر مفاد میں کیے جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک کو جو چیلنجز درپیش ہیں مجھے اتنہائی افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ان کو حل کرنے کے لیے پی ٹی آئی کی قیادت نے حل کرنے کے بجائے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی، اپنے صوبائی وزرائے خزانہ کو کہا کہ آپ آئی ایم ایف کی شرائط سے انکار کردیں تاکہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ نہ ہو سکے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری مشکلات پہلے ہی کم نہ تھیں کہ یہ کہہ کر مزید کانٹے بچھائے گئے کہ یہ سازش امریکا نے کی تھی اور پھر اتنی ڈھٹائی اور بے شرمی سے یوٹرن مارا، ایک دن یوٹرن مارا کہ امریکا نے سازش نہیں کی تھی، یہ سازش کے تانے بانے پاکستان کے اندر بنے گئے تھے لیکن اس نے ہمارے خارجی تعلقات کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا اور پھر کس طرح میں نے، وزیر خارجہ اور ہم نے مل کر معاملات کو ٹھیک کرنے کے لیے زور لگایا۔
شہباز شریف نے کہا کہ معاملات میں بہتری تو آئی ہے مگر میں یہ کہنے کے قابل نہیں کہ معاملات تسلی بخش ہیں۔