غالباً 1996 میں بنوں میں عمران خان کا پہلا جلسہ تھا۔ ذاکر خان جس کا تعلق بنوں سے ہے، نے بنوں جلسے کے انتظامات کیے تھے۔ ذاکر خان کافی عرصے سے پاکستان کرکٹ بورڈ میں کسی نہ کسی عہدے پر بھی براجمان رہتے آئے ہیں۔ ان دنوں ہمیں سیاست کی سمجھ بوجھ نہیں تھی مگر بطور کرکٹ فین عمران خان کو دیکھنا تھا، بنوں میں جس گراؤنڈ پر جلسہ منعقد ہورہا تھا اس کے قریب ہی ہمارا گھر تھا، اکثر میچز دیکھنے کے لیے بھی اسی گراؤنڈ جاتے رہے تھے۔
عمران خان نے تقریر میں بتایا کہ وہ بہت جلد بینظیر بھٹو کی وکٹ لینے والے ہیں اور آصف زرداری کو بار بار آصف علی بیماری کہتا رہا اور ہم خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ اس کے بعد بھی کئی سالوں تک سیاست میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی مگر عمران خان کو بڑے شوق سے سنتے رہے۔ بالخصوص جرنیلوں کے حوالے سے ان کا ایک سٹانس تھا کہ جرنیلوں کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ وزیراعظم بنائے ریاست چلائیں۔ اس دوران جب خان صاحب کا پاشائی جنم ہوا تو بھی ہم جیسے غیر سیاسی ذہنوں نے یہ بات تسلیم نہیں کی کہ خان صاحب امپائر کو ملا کر کھیل سکتے ہیں۔
سنہ 2013/14 میں سچ ڈاٹ ٹی وی کے لیے کالمز لکھنا شروع کیے تو میرے ہر کالم میں عمران خان کے برکات و ثمرات شامل ہوتے۔ ہماری خاتون ایڈیٹر صاحبہ عمران خان کو سخت نا پسند کرتی تھیں۔ ایک دن کہا کہ اگر میں عمران خان کو اتنی اچھی طرح جانتی نہ ہوتی تو آپ کی باتیں پڑھ کر میں نے خان کا عاشق بننا تھا۔ اس حوالے سے ہماری بحث و تکرار ہوتی رہی لیکن انہوں نے اتنی نا پسندیدگی کے باوجود کبھی بھی میرے لکھے گئے الفاظ کو نہیں چھیڑا۔ اب جب اس حوالے سے سوچتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں کہ کس تکلیف میں وہ میری تحریروں کی ایڈیٹنگ کررہی ہوں گی؟ یقیناً ان کے لیے تکلیف دہ عمل ہوگا۔
تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ میں بتا سکوں کہ خان کی سیاست نے ملک کے علاوہ معاشرے کو کتنا نقصان پہنچایا بالخصوص پشتون معاشرے کو مگر ساتھ یہ بھی کہ اس کا ذمہ دار عمران خان ہی ہے؟
بدقسمتی سے مجھے بار بار اپنی بات دہرانی پڑتی ہے کہ ہمارا نظام طے شدہ قوانین اوراصولوں کی بجائے شخصیات کی خواہشات کے مطابق چلتا آرہا ہے جس کی وجہ سے آج حالت یہ ہے کہ عوام بھی نظام سے مایوس ہو چکے ہیں۔
عمران خان کو لانے والوں کی عجیب دنیا ہے، اپنی ہی بنائی دنیا کے اس قدر اسیر ہیں کہ ان کی خیالی دنیا میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ وہ اگر سوچیں کہ فلاں بندہ چور ہے فلاں ڈاکو ہے تو اس کے لاشعور میں چلنی والی کہانی ان کے لیے ایک تلخ حقیقت بن جاتی ہے جس کو وہ اپنی تخلیقی دنیا میں اچھالتے رہتے ہیں اور پھر طاقت ان کے پاس اتنی زیادہ ہے کہ ان کو کوئی بندہ نہ بھی کہنے کی جرات نہیں کر سکتا چاہے وہ کتنا ہی غلط کیوں نہ کررہے ہو۔ اس بارے میں درجنوں مثالیں دی جا سکتی ہیں مگر موضوع سے ہٹیں گے نہیں۔
عمران خان ہیرو تھا ان کی تخیلاتی دنیا میں وہ کرپٹ نہیں تھا، انہوں کرکٹ کھیل کر ورلڈ کپ بھی جتایا تھا، ان کے خیال میں ان چوروں اورغداروں کی بجائے جو تھوڑی بہت حکمرانی بچتی ہے اس پر عمران خان جیسے کسی ایماندار شخص کا حق ہے۔
خیبرپختونخوا کو خان کے لیے بطور لانچنگ پیڈ استعمال کیا گیا حالانکہ میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ تحریک انصاف کی پہلی صوبائی حکومت بہتر تھی مگر اس بار پختونخوا کو تباہ و برباد کر دیا گیا۔
وفاق میں لانے کے لیے مختلف جماعتوں سے پی ٹی آئی میں ٹھونس ٹھونس کر ایسے لوگوں کو شامل کیا گیا جن کا قبلہ کبھی پارلیمان یا سیاست رہا ہی نہیں، ہمیشہ پنڈی کے اشاروں پر سیاسی حکومتوں کو سیدھا رکھنے کے لیے استعمال ہوتے رہے۔
اس دوران ففتھ جنریشن وار کے نام پر ہزاروں لوگوں کا ایک جتھہ تیار کیا گیا جن کا کام سیاست کو گالیاں دینا اور تحریک انصاف کے سوا تمام جماعتوں کی لیڈرشپ کو چور، ملک دشمن اور غداری کی گالیاں دینا تھا۔
پاکستانی عوام کا بنیادی مسئلہ شعوری کمی ہے۔ یہاں لوگوں کے ذہنوں میں آسانی کے ساتھ کوئی بھی غلط بات بٹھائی جا سکتی ہے اور یہاں بھی ایسے ہی ہوا۔ ہزاروں نوجوانوں کو ایک مصنوعی خطرے کے پیچھے لگا کر اصل خطرہ بھول ہی گئے جو آہستہ آہستہ نظام کو ڈھانے لگا۔ ملک میں کاروبار ختم ہونا شروع ہوا خرچے بڑھنے لگے پیسہ جمع ہونا کم ہوتا گیا۔ ڈاکٹرائن والوں کی سانس کم ہوتی گئی، ان کو احساس ہوا کہ ہم نے غلطی کر دی ہے۔
میری نظر میں اگر کرونا نہ آیا ہوتا تو خان صاحب کی حکومت محض آٹھ نو ماہ میں ہی چلی جاتی مگر کرونا نے پی ٹی آئی حکومت اور ڈاکٹرائن سرکار کو جوڑے رکھا۔
اس دوران خان صاحب کرسی لے کر بھی حیران تھا کہ اب آگے کیا کرنا ہے؟ عمران خان نے اپنی کمزوریوں کا حل مخالف سیاسی جماعتوں کو ٹارگٹ کرکے ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ مخالف سیاسی جماعتوں کو جیلوں میں ڈالا اور چور چور کا نعرہ بھی لگاتا رہا۔ لیکن حقیقت میں جتنی چوریاں تحریک انصاف کی حکومت میں ہوئیں وہ ناقابلِ فراموش ثابت ہوں گی، جب وقت کے ساتھ چیزیں سامنے آئیں گی۔
میاں نواز شریف کو عدالت سے نااہل کروایا گیا اور شریف فیملی کے لیے مشکلات اس قدر بڑھ گئی تھیں کہ میں نے وزیرستان میں لیشمینیا کی بیماری کے حوالے سے ٹوئیٹر پر تصاویر ٹویٹ کیں تو ایک خاتون صحافی اور ایکٹیوسٹ نے مجھ سے رابطہ کیا کہ نواز شریف صاحب کا بیٹا اس حوالے سے مدد کرنا چاہتا ہے اور بیماری سے متاثرہ بچوں بچیوں کے علاج کے لیے دوائیاں بھیجنا چاہتا ہے مگر یہ سب کچھ رازداری کے ساتھ ہو سکتا ہے اگر آپ کوئی طریقہ کار بنا سکتے ہیں تو بات کی جا سکتی ہے۔
میں اس وقت کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر اور ڈپٹی کمشنر سے ملا مگر تحریک انصاف حکومت کی خوف کی وجہ سے مدد لینے کے لیے راضی نہ ہوئے بقول ان کے اگر بات کھل گئی تو ہمارے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
ووٹ کو عزت دو کے نام سے شروع ہونے والی سیاسی جدوجہد کے دوران جب میاں نواز شریف نے جلسوں میں جنرل باجوہ اور فیض حمید کے نام لینا شروع کر دیے تب ڈاکٹرائن سرکار دو طرح سے مشکل میں آئی ۔ ایک طرف ان کو پیسہ نہیں مل رہا تھا اور دوسری طرف ذاتی مفاد خطرے میں پڑا۔ میں اس بات پر تو یقین رکھتا ہوں کہ خان پر عدم اعتماد ہوا لیکن اس بات پر بھی یقین رکھتا ہوں کہ ڈاکٹرائن سرکار کی مرضی بھی شامل تھی۔
اس سارے عمل سے بنیادی نقصان یہ ہوا کہ ملک کے معاشی حالات ناقابلِ مرمت حال تک خراب ہو چکے تھے۔ دوست ممالک جو ہمیشہ پاکستان کو مشکل حالات میں ریسکیو کرنے کے لیے سامنے آتے تھے ان کے ساتھ تعلقات اس حد تک خراب ہو چکے تھے کہ اس وقت علاج تو ڈھونڈا جارہا ہے مگر مل نہیں رہا۔
دوسری طرف ففتھیوں کا وہ ٹولہ جو ریموٹ کنٹرول سے چلتا رہا کو جب نئے حالات کا سامنا ہوا تو وہ قبول نہیں کر سکے اور ایسا ہونا فطری بھی تھا کیونکہ یہ لوگ نفسیاتی طور پر ڈاکٹرائن والی مصنوعی دنیا میں اس قدر کھو چکے تھے کہ ان کو کوئی اور دنیا نظر ہی نہیں آنی تھی۔ اس میں بہت سی آوازیں ایسی بھی ہیں جو زیرو سے اٹھ کر کروڑ پتی بنے اور ان کے معاشی مفادات اس قدر طاقتور ہوئے کہ وہ کسی اور ماڈل میں ایڈ جسٹ نہیں ہو سکتے تھے۔
ڈاکٹرائن سرکار کو پہلی بار ان کے لیول کا بندہ خان کی صورت میں ملا انہوں نے ہر صورت کرسی کے لیے ضد شروع کر دی۔ لوگوں کے ذہنوں میں ایک ایسا بیانیہ ڈالا کہ اب اسٹیبلشمنٹ سر جوڑ کر بیٹھی ہوئی ہے۔ جو لوگ ایک واٹس ایپ کی دوری پر تھے وہ بھی سینہ تان کر سامنے آئے ہیں جس کے نتائج کیا نکلیں گے یہ تو آنے والے دنوں میں پتہ چل جائے گا مگر اس وقت پورا سسٹم داؤ پر لگا ہوا ہے۔
سب سے بڑا نقصان معاشرتی طور پر ہوا۔ عمران خان نے جھوٹے بیانیے کو تقویت دینے کے لیے سب سے زیادہ تکلیف اس طبقے کو دی جو ہمیشہ جمہوریت کی بقاء کے لیے ہر جدوجہد کا ساتھ دینے کے لیے کھڑے ہوجاتے، مگر دور عمران خان نے اس طبقے کو بھی جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے اور اس وقت وہ بھی انہی آوازوں کا ساتھ دیتے نظر آرہے ہیں جن کا ٹارگٹ اس وقت بالکل بھی واضح نہیں۔ لیکن فاشزم کی شدت نے اصولوں کو مات دے دی ہے۔
گزرے پانچ چھ سالوں میں اتنا کچھ ہوا کہ کتابیں لکھی جا سکتی ہیں لیکن آخر میں پشتون معاشرے کو پہنچنے والے نقصان کی بات ضروری ہے۔ کیونکہ عموماً کہا جاتا ہے کہ تحریکِ انصاف کو خیبرپختونخوا کے لوگوں کی حمایت حاصل ہے۔ سابق وزیراعلی محمود خان کے دور میں خیبرپختونخوا کو جو سب سے بڑا نقصان پہنچا وہ یہ کہ صوبہ انتظامی طور پر ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ کرپشن کا ایک ایسا ماحول پروان چڑھا ہے کہ اس وقت دفتروں میں کھلے عام سودے بازیاں ہورہی ہیں اور شاید ہی کبھی حالات اچھائی کی طرف جائیں۔
پشتون علاقوں میں دہشت گردی اور بدامنی کے شدید خطرات پیدا ہوئے مگر تحریک انصاف نے پشتون یوتھ کو اپنے حالات سے مکمل غافل کر کے رکھ دیا ہےجس کا نقصان پورے پشتون معاشرے کو ہورہا ہے۔
ان سارے نقصانات کے ذمہ دار مجرم کبھی نہیں کہلائے جاسکیں گے البتہ غلطی قرار دی جائے گی اور مجھے ڈر ہے کہ ابھی بھی اگر حالات تھوڑے سنبھلتے ہیں تو پھر سے کوئی غلطی کر سکتا ہے۔ حل ڈھونڈنا کافی مشکل ہے کیونکہ آئین اور قانون سے ماورا اشخاص ہیں یہاں۔۔