معروف شاعر آنند بخشی نغمہ نگار نہیں بلکہ گلوکار بننا چاہتے تھے

منگل 1 اپریل 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اپنے سدا بہار گیتوں سے سامعین کا دل لبھانے والے بالی ووڈ کے مشہور نغمہ نگار آنند بخشی نے قریبا 4 دہائی تک سامعین کو اپنا دیوانہ بنائے رکھا لیکن بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ وہ نغمہ نگار نہیں بلکہ گلوکار بننا چاہتے تھے۔

متحدہ ہندوستان کے شہر راولپنڈی میں 21 جولائی 1930 کو پیدا ہوئے آنند بخشی کو ان کے رشتہ دار پیار سے نند یا نندو کہہ کر پکارتے تھے۔ بخشی ان کے خاندان کا لقب تھا جبکہ ان کے اہلخانہ نے ان کا نام آنند پرکاش رکھا تھا۔ لیکن فلمی دنیا میں آنے کے بعدآنند بخشی کے نام سے ان کی پہچان بنی۔

آنند بخشی بچپن سے ہی فلموں میں کام کرکے شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے کا خواب دیکھا کرتے تھے لیکن لوگوں کے مذاق اڑانے کے خوف سے انہوں نے اپنی یہ منشا کبھی ظاہر نہیں کی تھی۔ وہ فلمی دنیا میں گلوکارکے طور پر اپنی شناخت بنانا چاہتے تھے۔ آنند بخشی اپنے خواب پورا کرنے کے لیے 14 سال کی عمر میں ہی گھر سے بھاگ کر فلم نگری ممبئی آ گئے جہاں انہوں نے رائل انڈين نیوی میں کیڈٹ کے طور پر 6 سال تک کام کیا۔

مزید پڑھیں: احمد فراز: صحرائے محبت کا مسافر

کسی تنازع کی وجہ سے انہیں وہ نوکری چھوڑنا پڑی۔ انہوں نے ہندوستانی فوج میں بھی ملازمت کی۔ بچپن سے ہی مضبوط ارادے والے آنند بخشی اپنے خواب کو پورا کرنے کے لیے نئےجوش کے ساتھ دوبارہ ممبئی پہنچے جہاں ان کی ملاقات اس زمانے کے مشہور اداکار بھگوان دادا سے ہوئی۔

شاید قسمت کو یہی منظور تھا کہ وہ نغمہ نگار ہی بنیں۔ بھگوان دادا نے انہیں اپنی فلم ’بھلا آدمی‘ میں نغمہ نگار کے طور پر کام کرنے کا موقع دیا۔ اس فلم کے ذریعے وہ اپنی شناخت بنانے میں بھلے ہی کامیاب نہیں ہو پائے لیکن ایک نغمہ نگار کے طورپر ان کے فلمی کیریئر کا سفر شروع ہو گیا۔

آنند بخشی قریباً 8 برس تک فلم انڈسٹری میں جدوجہد کرتے رہے۔ 1965 میں فلم ’جب جب پھول کھلے‘ ریلیز ہوئی تو ان کے نغمے:
’پردیسیوں سے نہ اكھياں ملانا‘
’یہ سماں، سماں ہے یہ پیار کا‘
’ایک تھا گل اور ایک تھی بلبل‘
سپر ہٹ رہے اور نغمہ نگارکے طور پر ان کی شناخت بن گئی۔ اسی سال فلم ’ہمالیہ کی گود میں ‘ان کا نغمہ ’چاند سی محبوبہ ہو مری کب ایسا میں نے سوچا تھا‘ کو بھی شائقین نے بہت پسند کیا۔

مزید پڑھیں: سپمورن سنگھ کالرا سے گلزار تک

1968 میں ریلیز سنیل دت اور نوتن کی فلم ’ملن‘ کے نغمہ ’ساون کا مہینہ پون کرے شور، یگ یگ تک ہم گیت ملن کے گاتے رہیں گے، رام کرے ایسا ہو جائے‘ جیسے سدا بہار نغموں کے ذریعے انہوں نے نغہ نگارکے طور پر نئی بلندیوں کو چھو لیا۔

فلم انڈسٹری میں بطور نغمہ نگار جگہ بنانے کے بعد بھی گلوکار بننے کی آنند بخشی کی حسرت ہمیشہ بنی رہی۔ انہوں نے 80 کی دہائی میں آئی فلم موم کی گڑیا میں ’میں ڈھونڈ رہا تھا سپنوں میں‘ اور ’باغوں میں بہار آئی‘ جیسے نغمے گائے، جو کافی مقبول بھی ہوئے۔

اس کے ساتھ ہی فلم ’چرس‘ کا گیت ’آجا تیری یاد آئی‘ کی چند لائنوں میں اور کچھ دیگر فلموں میں بھی انہوں نے اپنی آواز دی ہے۔ آنند بخشی نے 550 سے بھی زائد فلموں میں قریباً 4 ہزار گیت لکھے۔ اپنے نغموں سے قریباً 4 دہائی تک سامعین کو مسحور کرنے والے نغمہ نگار آنند بخشی 30 مارچ 2002 کو اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔

آنند بخشی ٹاپ 10 گیت

چنگاری کوئی بھڑکے: امر پریم
چاند سی محبوبہ ہو مری کب ایسا میں نے سوچا تھا: ہمالے کی گود میں
کورا کاغذ تھا یہ من میرا: کورا کاغذ
میری تصویر لے کر کیا کرو گے؟: کالا سمندر
اچھا تو ہم چلتے ہیں: آن ملو سجنا
تجھے دیکھا تو یہ جانا صنم: دل والے دلہنیا لے جائیں گے
یہ جو چلمن ہے دشمن ہے ہماری: محبوب کی مہندی
روپ تیرا مستانہ پیار میرا دیوانہ: آرادھنا
یہ ریشمی زلفیں یہ شربتی آنکھیں: دو راستے
یہ شام مستانی مدہوش کیے جائے: کٹی پتنگ

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp