امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مختلف ممالک پر ٹیرف عائد کرتے ہوئے اقتصادی جنگ کا آغاز کردیا ہے، تاہم پاکستان نے 29 فیصد ٹیرف عائد کرنے پر مذاکرات کے لیے اعلیٰ سطح کا وفد امریکا بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔
وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کی جانب سے وفد کو اہم ٹاسک سونپے گئے ہیں، تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کے امریکا کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہو پائیں گے یا نہیں؟
یہ بھی پڑھیں نئے ٹیرف سے متعلق مذاکرات: پاکستان نے اعلیٰ سطح کا وفد امریکا بھیجنے کا فیصلہ کرلیا
سفارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں، کیوں کہ 7 اپریل کو امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو نے اسحاق ڈار کو ٹیلی فون کال کی جس میں اہم امور پر تبادلہ خیال ہوا۔
وی نیوز نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا پاکستان ٹیرف کے معاملے میں واقعی امریکا سے اپنے مطالبات منوانے کی پوزیشن میں ہے اور مذاکرات میں جواباً امریکی مطالبات کیا ہو سکتے ہیں؟
7 اپریل کو نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار اور امریکی سیکریٹری آف سٹیٹ مارکو روبیو کے درمیان ٹیلیفونک گفتگو ہوئی جس میں جہاں دہشتگردی، افغانستان کی صورتحال، دوطرفہ تجارت بڑھانے پر بات چیت ہوئی وہیں امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ نے دنیا بھر میں معدنیات کی بڑھتی ہوئی طلب کے پیش نظر پاکستانی معدنیات میں اپنی دلچسپی ظاہر کی اور پھر پاکستان معدنیاتی فورم میں اعلیٰ سطحی امریکی وفد نے شرکت بھی کی۔ امریکی سینیئر بیورو آفیشل ایرک میئر کی قیادت میں آنے والے امریکی وفد نے نہ صرف وزیراعظم بلکہ آرمی چیف سے بھی ملاقات کی ہے۔
دہشتگردی کے معاملات کو لے کر پاکستان کی جانب سے امریکی حکومت کو انتہائی مطلوب افغان نژاد دہشتگرد شریف اللہ کی گرفتاری اور حوالگی کے معاملات سے لگتا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان اس وقت تعلقات خوشگوار ہیں۔
لیکن اس سارے تناظر میں امریکا کی جانب سے پاکستان پر عائد 29 فیصد ٹیرف کیا پاکستان کی معیشت کے لیے ایک سنگین خطرہ بن سکتا ہے اور اگر ایسا ہے تو کیا پاکستان امریکا سے اس ٹیرف میں کمی کے حوالے سے کامیاب مذاکرات کر سکتا ہے؟
یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ وفاقی حکومت اس سلسلے میں ایک اعلی سطحی وفد کا اعلان کر چکی ہے جو واشنگٹن میں امریکی حکومت سے مذاکرات کرےگا، اور اگر امریکی حکومت اس سلسلے میں کوئی شرائط رکھتی ہے تو کیا پاکستان ان شرائط کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟
ٹیرف کے معاملے پر پاک امریکا مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں، سفارتکار مسعود خان
امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندہ رہنے والے مسعود خان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ٹیرف کے معاملے پر پاک امریکا سفارتی مذاکرات بالکل ممکن ہیں اور یہ کامیاب بھی ہو سکتے ہیں۔
ممکن ہے امریکا ہمیں اس معاملے میں رعایت دے، عبد الباسط
سینیئر سفارت کار عبد الباسط نے کہاکہ اس معاملے پر پاکستان اور امریکا کے مابین کسی نہ کسی سطح پر بات چیت ضرور ہوگی اور اس گفت و شنید میں پاکستان انسداد دہشتگری کے حوالے سے خاص طور پر داعش اور القاعدہ کے حوالے سے اپنے کردار کی بات کرےگا۔
انہوں نے کہاکہ ممکن ہے پاکستان بھی کچھ امریکی مصنوعات پر ٹیرف میں کمی کرے اور امریکا بھی ممکنہ طور پر ہمیں رعایت دینے کے لیے تیار ہو۔
پاکستان کو نقصان سے بچنے کے لیے 5 ارب ڈالر کی کوئی مارکیٹ ڈھونڈنا پڑے گی، شکیل رامے
معاشی تجزیہ نگار اور محقق شکیل رامے نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان اور امریکا کے درمیان تجارت کا حجم قریباً 5 ارب ڈالر ہے، جس میں سے 2 ارب ڈالر پاکستان کی درآمدات جبکہ 3 ارب ڈالر برآمدات ہیں۔
انہوں نے کہاکہ امریکا کا پاکستان کے ساتھ تجارتی خسارہ 3 ارب ڈالر ہے، اگر امریکی تناظر میں دیکھا جائے تو امریکا کی کل برآمدات 5.33 ٹریلین ڈالر ہیں، جبکہ امریکا کا تجارتی خسارہ 1200 ارب ڈالر ہے۔ اگر دیکھا جائے تو پاکستان کے ساتھ اس کا 3 ارب ڈالر تجارتی خسارہ کوئی معنی نہیں رکھتا، لیکن پاکستان کے لیے یہ بہت معنی رکھتا ہے کیونکہ پاکستان کی برآمدات کا زیادہ حصہ ٹیکسٹائل ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ٹیکسٹائل سیکٹر سے لاکھوں لوگوں کا روزگار جڑا ہے اور پاکستان کے لیے یہ امریکی ٹیرف منصوبہ بہت نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے، اس نقصان سے بچنے کے لیے پاکستان کو اپنی 5 ارب ڈالر کی کوئی میں مارکیٹ ڈھونڈنا پڑے گی۔
یہ بھی پڑھیں آرمی چیف سے امریکی وفد کی ملاقات، معدنی دولت کی ترقی کے لیے پاکستان کی پالیسی پر اظہار اعتماد
کیا پاکستان امریکا کے ساتھ کامیاب مذاکرات کر سکتا ہے؟
کیا پاکستان امریکا کے ساتھ کامیاب مذاکرات کر سکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں شکیل رامے نے کہاکہ تاریخی طور پر یہ ثابت ہے کہ امریکا اپنی شرائط منوانے کے لیے ایسا کرتا ہے، ایک عمومی سا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چونکہ امریکا سی پیک مخالف ہے اس لیے وہ پاکستان سے سی پیک کے خلاف کوئی کمٹمنٹ لینا چاہے گا، اس بارے میں حتمی بات تب ہی ممکن ہے جب امریکا کی جانب سے شرائط سامنے آئیں گی۔