ڈیفینس آف پاکستان اور ڈیفینس سروسز آف پاکستان دو علیحدہ چیزیں ہیں، جسٹس محمد علی مظہر

جمعرات 10 اپریل 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے کی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے دریافت کیا کہ اپیل کے حوالے سے کل ہم نے اٹارنی جزل سے بھی پوچھا تھا، 175 کے پارٹ کو کسی نے چیلنج نہیں کیا، وزارت دفاع کی وکالت کرتے ہوئے خواجہ حارث بولے؛ سلمان اکرم راجہ نے سارے دلائل ہی 175 پر دیے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا 175 سے ہٹ کر بھی سویلینز کے ملٹری ٹرائل کی اجازت ہے، خواجہ حارث کا موقف تھا کہ محرم علی اور لیاقت حسین کیس میں یہ تمام چیزیں موجود ہیں، آرمڈ فورسز سے تعلق والا پوائنٹ ایف بی علی سے ہی نکلا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سویلینز کا ملٹری ٹرائل: شکایت کنندہ خود کیسے ٹرائل کر سکتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل کا استفسار

جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ ہم پہلے دن سے یہ کہہ رہے ہیں کہ جو کمی ایف بی علی میں تھی وہ آج بھی ہے، جس پر خواجہ حارث بولے؛ جو آپ کہہ رہے ہیں وہ 9 ممبر بینچ کی رائے ہے.

جسٹس امین الدین کا کہنا تھا کہ اگر آپ تعلق کی بات کر رہے ہیں تو یہ بھی آبزرویشن نہیں ہے، جسٹس محمد علی مظہر کا موقف تھا کہ ڈیفنس آف پاکستان اور ڈیفنس سروسز آف پاکستان دو علیحدہ چیزیں ہیں، جس پر خواجہ حارث نے دلیل دی کہ سول ڈیفینس کا ملک کے ڈیفینس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

خواجہ حارث کے مطابق اس میں جرم اس نوعیت کا ہونا چاہیے جو آرمڈ فورسز پراثرکرے، سروس میں تو سارے ممبر آف آرمڈ فورسز آجاتے ہیں، 8 تھری اے میں دیکھیں ڈسپلن کی بات ہو رہی ہے۔

مزید پڑھیں:سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر آئینی بینچ کا آئندہ 2 سماعتوں پر فیصلہ دینے کا عندیہ

جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ ممنوعہ جگہ پر داخل ہونا بھی خلاف ورزی میں آتا ہے، کنٹونمنٹ کے اندر شاپنگ مالز بن گئے ہیں اگر کسی دن مجھے اندر جانے کی اجازت نا ملے تو کیا ہوگا۔

جسٹس نعیم اختر افغان کا موقف تھا کہ آج کل کنٹونمنٹ میں فوڈ کورٹ بہترین مالز بنا دئیے گئے ہیں اگر اجازت نامے کے بغیر وہ زبردستی اندر داخل ہوجاؤں تو کیا ان کا بھی ملٹری ٹرائل ہو گا، 1967 کی ترمیم کے بعد 2 ڈی 2 کا کوئی کیس نہیں آیا یہ پہلا کیس ہے جو ہم سن رہے ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے خواجہ حارث سے کہا کہ ممنوعہ جگہوں میں کون کون سی جگہیں آتی ہیں اس کی تعریف پڑھ دیں، جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ اگر ممنوعہ جگہوں پر جانے پر ملٹری ٹرائل شروع ہوئے تو کسی کا بھی ملٹری ٹرائل کرنا بہت آسان ہو گا۔

مزید پڑھیں:سویلینز کا ملٹری ٹرائل: قانون کے اطلاق کا معیار طے کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے عدلیہ کا نہیں، وکیل خواجہ حارث

جسٹس نعیم اختر افغان کا کہنا تھا کہ لاہور ،کوئٹہ، گوجرانوالہ میں کنٹونمنٹ علاقے ہیں، ایسے میں تو سویلین انڈر تھریٹ ہونگے، وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث کا موقف تھا کہ ایسا تب ہوگا جہاں کسی علاقے کو ممنوعہ قرار دیتے ہوئے اسے نوٹیفائی کیا گیا ہو۔

جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ شاپنگ مالز کو ممنوعہ علاقہ تو قرار نہیں دیا جاتا، جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ کوئٹہ کینٹ میں تو آئے روز اس نوعیت کے جھگڑے دیکھنے کو ملتے ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر کے مطابق کراچی میں 6 سے 7 کینٹونمنٹ علاقے ہیں، وہاں ایسا تو نہیں ہے کہ مرکزی شاہراہوں کو بھی ممنوعہ علاقہ قرار دیا گیا ہو، جسٹس حسن اظہر رضوی بولے؛ سپریم کورٹ کے 5 سے 6 ججز کلفٹن کینٹ کے رہائشی ہیں، وہاں تو ممنوعہ علاقہ نوٹیفائی نہیں ہے۔

مزید پڑھیں:سویلینز کا ملٹری ٹرائل: یہ کوئی ہائیکورٹ نہیں کہ دائرہ سماعت محدود ہوگا، جسٹس محمد علی مظہر کے ریمارکس

جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ انہیں ایک مرتبہ اجازت نامہ نہ ہونے کے سبب کینٹ ایریا میں داخل نہیں ہونے دیا گیا، ڈیفنس آف پاکستان کی تعریف میں جائیں تو سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ بھی اس میں آتے ہیں، پاکستان میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ تو شروع سے موجود ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے دریافت کیا کہ کیا ملٹری کورٹس میں زیادہ سزاؤں کی وجہ سے کیسز جاتے ہیں، عام عدالتوں میں ٹرائل کیوں نہیں چلتے، خواجہ حارث کا موقف تھا کہ نیب قانون سے پہلے بھی انسداد بدعنوانی کے لیے قوانین تھے۔

خواجہ حارث کے مطابق نیب قانون میں کہا گیا جس پر الزام لگے اسے اپنی بےگناہی ثابت کرنی ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ درست قانون ہے، جب سے آئین میں آرٹیکل 10 اے متعارف کیا گیا پہلے والی چیزیں ختم ہو گئیں، ملٹری ٹرائل کے لیے آزادانہ فورم کیوں نہیں ہے۔

مزید پڑھیں:سویلینز کے خلاف ملٹری ٹرائل کی سماعت میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کا تذکرہ کیوں ہوا؟

وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کا موقف تھا کہ ہم آئین کے پابند ہیں اور آئین کہتا ہے ملٹری ٹرائل کو بنیادی حقوق کے تناظر میں نہیں جانچا جاسکتا۔

فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت 15 اپریل تک ملتوی کردی گئی، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث جواب الجواب میں دلائل جاری رکھیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp