ایس ایڈ کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کے بعد رونما ہونے والی صورتحال پر کی جانے والی ایک نئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اگر صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی امدادی پروگراموں میں کمی کے منصوبے پر عمل کرتے ہیں تو 2030 تک تقریباً ڈیڑھ ملین بچے ایڈز سے ہلاک ہو سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:یو ایس ایڈ کے غیر ملکی پراجیکٹس کیوں بند ہوئے اور ان کا پاکستان پر کیا اثر پڑے گا؟
محققین کا خیال ہے کہ اگر امریکی صدر کا ایڈز ریلیف کے لیے ہنگامی منصوبہ معطل ہو جاتا ہے یا صرف محدود، قلیل مدتی فنڈنگ حاصل ہوتی ہےتو بھی10 لاکھ اضافی بچے ایچ آئی وی سے متاثر ہو جائیں گے اور دہائی کے آخر تک تقریباً 5 لاکھ بچے ایڈز سے ہلاک ہو جائیں گے۔
محققین نے کہا کہ اس کے علاوہ بالغوں میں ایڈز سے ہونے والی اموات سے 2.8 ملین بچے یتیم ہو سکتے ہیں۔
برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں چائلڈ اینڈ فیملی سوشل ورک کی پروفیسر شریک لیڈ محقق لوسی کلور نے کہا ’پی ای پی ایف اے آر کے پروگراموں کے لیے مستحکم، طویل مدتی تعاون سے محروم ہونا، خاص طور پر بچوں اور نوعمروں کو ایڈز کو وبا کے تاریک دور دھکیلنے جیسا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یو ایس ایڈ کو کیوں بند کرنا چاہتے ہیں؟
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہنا ہے کہ پروگراموں سے اچانک دستبرداری اور اس کی جگہ لینے کے لیے طویل مدتی حکمت عملی کی عدم موجودگی میں ایڈز انفیکشنز اور قابل تدارک اموات اور ایڈز سے یتیم ہونے والے بچوں کی تعداد میں ڈرامائی اضافہ کا باعث بن سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسا دھچکا جو 2 دہائیوں کی پیشرفت کو ختم کر سکتا ہے۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ نے 20 جنوری کو تمام غیر ملکی امداد کی فنڈنگ کو روک دیا تھا جس کے بعد ہی محققین نے نوٹ کیا کہ اس بندش سے بہت سی خدمات میں خلل پڑا ہے یا معطل کر دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ پی ای پی ایف اے آر کا ادارہ2003 میں صدر جارج ڈبلیو بش کے دور میں قائم کیا گیا تھا، اور یہ پروگرام ایڈز کی عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے ایک سنگ بنیاد بن گیا ہے۔
محققین نے کہا کہ پی ای پی ایف اے آر نے 26 ملین سے زیادہ جانیں بچائی ہیں اور اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ 7.8 ملین بچے ایڈز سے پاک پیدا ہوں۔ پروگرام فی الحال 20 ملین سے زیادہ لوگوں کو ایڈز کی روک تھام اور علاج کی خدمات کے ساتھ معاونت کرتا ہے۔