بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ توڑنے کے بعد ایک بار پھر پاکستان اور بھارت کے مابین تناؤ کی کیفیت ہے کیوں کہ اس بار بھارت نے پاکستان میں رہنے والے کروڑوں عوام سے براہ راست زندہ رہنے کا حق چھیننے کی کوشش کی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا سندھ طاس معاہدہ توڑنا اتنا آسان ہے یا ایسا ہونا ممکن ہے؟
یہ بھی پڑھیں:بھارت نے یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ معطل کیا، پانی روکا تو بھرپور جواب دیا جائے گا، پاکستان
اس حوالے سے جامعہ کراچی میں شعبہ تاریخ کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر معیز خان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت 3 دریا بھارت جبکہ 3 پاکستان کے حصے میں آئے۔ 1960 میں ہونے والے اس معاہدے کے بعد 3 دریا جن کا بہاؤ پاکستان کی طرف تھا وہ بھی غلط تھا کیوں کہ اگر بات کی جائے اس خطے کی تو پانی کشمیر سے بھارت کے کچھ علاقوں سے ہوتا ہوا پاکستان میں آتا ہے جو قدرتی طریقہ ہے اور اسے روکا نہیں جا سکتا۔
ڈاکٹر معیز خان کا کہنا ہے کہ اس فارمولے کو اگر ٹھیک مان بھی لیا جائے تو کیا بھارت ہماری ہوا اور سورج کو بھی روک لے گا؟ سندھ طاس معاہدہ جو کہ غلط تھا، چلیں ہم اسی کو اگر درست مان بھی لیں تو کیا بھارت اسے توڑ سکتا ہے؟ ایسا نہیں ہے اس میں تیسرے فریق ورلڈ بنک کو بھی شامل کرنا ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں:سندھ طاس معاہدہ کیا ہے، کیا بھارت پاکستان کا پانی روک سکتا ہے؟
ڈاکٹر معیز کے مطابق پہلے جنگیں ہوا کرتی تھیں اسلحے کے زور پر لیکن اب پانی کی قلت سیکیورٹی تھریڈ ہے، بڑی آبادی کے لیے غذا کی کمی سیکیورٹی تھریڈ ہے، ماحولیاتی آلودگی سیکیوریٹی تھریڈ ہے، پانی کی قلت ایک سنجیدہ سیکیورٹی تھریڈ ہے اور اس کو اسی طرح سنجیدہ لینا چاہیے۔
ڈاکٹر معیز کہتے ہیں کہ پاکستان دنیا کا آبادی کے اعتبار سے پانچواں بڑا ملک ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا دنیا کی پانچویں آبادی والے ملک کو پیاسا مارا جا سکتا ہے؟ ایسا ممکن نہیں بین الاقوامی ادارے اور کمیونیٹیز اس میں اپنا کردار ادا کریں گیں لیکن ہم سچ لیتے ہیں کہ بھارت ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو کیا بھارت محفوظ رہے گا؟ اگر ہماری طرف پانی آتا ہے تو وہ ہر شکل میں آتا ہے وہ کبھی کم ہو گا کبھی سیلاب آئے گا لیکن جب بھارت کو سیلاب کا سامنا ہو گا تو تب کیا کرے گا؟
یہ بھی پڑھیں:سندھ طاس معاہدے کی معطلی اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی
بھارت نے بنا تحقیق، قبل از وقت پاکستان پر دہشتگردی کا الزام لگا دیا ہے اور اس کی آڑ میں وہ اب پاکستان کے خلاف پانی کا ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ اس دھمکی کے بدلے میں بھارت کیا چاہتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان کا ردعمل ذمہ دارانہ ہے، جہاں دہشتگردی کا واقعہ ہوا ہے وہ ایسا علاقہ نہیں کہ ہمارے بارڈر کے ساتھ جڑا ہوا ہو۔ وہ بہت اندر کا علاقہ ہے۔ اس لیے بغیر شواہد کے الزام لگانا اور دھمکانا قابل افسوس ہے۔