ایک ساتھ انتخابات کرانے کے لیے حکومت اور پی ٹی آئی وفد میں ڈیڈ لاک کیوں ہوا؟

منگل 2 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ملک میں ایک ہی وقت عام انتخابات کرانے کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے حکومتی ٹیم اور تحریک انصاف کے وفد کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور ختم ہوگیا ہے۔

حکمران اتحاد اور تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے درمیان انتخابات کے حوالے سے مذاکرات کا تیسرا دور پارلیمنٹ ہاؤس کے کمیٹی روم میں ہوا۔

مذاکرات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حکومتی اتحاد کی کمیٹی کے سربراہ اسحاق ڈار نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ پر ابھی اتفاق رائے نہیں ہوسکا۔

انہوں نے کہا کہ دونوں فریقین نے تجاویز پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ ہم نے کہا کہ جو بھی انتخابات جیتے گا نتائج تسلیم کریں گے۔ ملک میں ایک ہی روز انتخابات کے لیے اتفاق ہونا بڑی کامیابی ہے۔

سپریم کورٹ کو کہیں گے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کا حکم دے: شاہ محمود

دوسری جانب سے پی ٹی آئی کے وفد کی سربراہی کرنے والے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ہم نے کوشش کی کہ کسی ایسے نکتے پر متفق ہوں جو آئین سے مطابقت رکھتا ہو مگر اب عدالت عظمیٰ کو کہیں گے کہ ہمارے درمیان اتفاق رائے نہیں ہو سکا اس لیے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانے کا حکم دیا جائے۔

شاہ محمود کا کہنا تھا کہ حکومتی وفد کی تجویز تھی کہ ملک میں ایک روز انتخابات کرائے جائیں۔ اتفاق کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی نہ ہو۔

 انہوں نے کہا کہ اگر 90 روز میں انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہوتا تو ایک ہی روز میں انتخابات کے لیے آئین میں ترمیم کرنی پڑے گی اور ہم نے ون ٹائم ترمیم کی تجویز بھی سامنے رکھی ہے۔

وائس چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ خیبر پختونخوا اور پنجاب میں 90 روزکے اندر انتخابات کرانا آئینی تقاضا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے تجویز دی کہ 14 مئی سے قبل قومی اسمبلی، سندھ اور بلوچستان اسمبلی کو تحلیل کر دیا جائے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ہم نے حکومتی وفد کے ممبران کو بتایا کہ ایک طرف مذاکرات اور دوسری جانب گرفتاریاں کی جا رہی ہیں جبکہ خواجہ آصف کی گفتگو نے معاملات کو پیچیدہ کیا ہے۔ جاوید لطیف اور احسن اقبال کی گفتگو بھی حوصلہ افزا نہیں تھی۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ہم سپریم کورٹ کو مذاکرات کے حوالے سے اپنا موقف تحریری طور پر دیں گے۔

مذاکرات کے لیے حکومتی کمیٹی میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار، یوسف رضا گیلانی، اعظم نذیر تارڑ، سعد رفیق، طارق بشیر چیمہ اور کشور زہرہ شریک تھے۔

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے شاہ محمود قریشی نے مذاکراتی ٹی کی سربراہی کی جب کہ ان کے ساتھ فواد چوہدری اور سینیٹر علی ظفر بھی موجود تھے۔

قبل ازیں پی ٹی آئی کے مذاکراتی وفد کا اجلاس شاہ محمود قریشی کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں حکومت کے ساتھ مذاکرات کی تیسری نشست کے لیے حکمت عملی طے کی گئی۔

حکومتی اتحاد اور تحریک انصاف میں کس نکتے پر ڈیڈ لاک ہوا؟

تحریک انصاف کی جانب سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ 14 مئی سے پہلے قومی اسمبلی، سندھ اور بلوچستان اسمبلی تحلیل کرنے کی تاریخ دی جائے جس کے جواب میں حکومت کی جانب سے یہ تجویز سامنے آئی کہ بجٹ پیش کرنے کے بعد جون کے وسط میں اسمبلی تحلیل کر دی جائے گی اور 60 روز کے اندر انتخابات کروا دیے جائیں گے۔

تا ہم حکومت نے تحریری طور پر سپریم کورٹ کے سامنے اسمبلی تحلیل کرنے کی تاریخ دینے سے گریز کیا۔

مذاکرات کے دوران 3 رکنی ٹیم نے سابق وزیراعظم عمران خان سے رابطہ کیا اور حکومتی تجویز سے آگاہ کیا گیا۔ پی ٹی آئی چیئرمین نے اس پر کہا کہ سپریم کورٹ 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانے کا فیصلہ دے چکی ہے۔ اب 14 مئی کو انتخابات نہ کروانے کا مقصد سپریم کورٹ کے احکامات سے روگردانی ہے۔ اگر 14 مئی سے قبل کی کوئی تاریخ نہیں دی جاتی تو معاملہ سپریم کورٹ لے جایا جائے گا۔

حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات؛ کیا آج بریک تھرو ہوگا؟

مذاکرات سے قبل چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے حکمران اتحاد اور پی ٹی آئی مذاکرتی ٹیموں کے اعزاز میں عشائیہ دیا۔

صادق سنجرانی نے عشائیہ کی میز پر دونوں فریقین کو بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے کی تجاویز دیں۔

ذرائع کے مطابق چیئرمین سینیٹ نے کہا ہے کہ سیاسی تناؤ ملک وقوم کے مفاد میں نہیں۔ سیاسی تناؤ ختم کرنے سے معاشی جمود ختم ہو گا۔

چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے اختلافات بالائے طاق رکھ کر قومی مفاد میں متحد ہونا چاہیے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp