اسپیکر ایاز صادق کے خلاف عدم اعتماد کا معاملہ، کیا پی ٹی آئی مقررہ ووٹ حاصل کرسکتی ہے؟

منگل 20 مئی 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے شہباز شریف کی حکومت کو ختم کرنے اور اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی خبریں سامنے آرہی ہیں، پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر نے تحریک عدم اعتماد لانے کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم اور اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا کوئی ارادہ نہیں، عمران خان نے مجھے ایسی کوئی ہدایات جاری نہیں کیں، میڈیا پر اس حوالے سے چلنے والی تمام خبریں بے بنیاد ہیں۔

وی نیوز نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ تحریک عدم اعتماد کے لیے کتنے ارکان کی حمایت درکار ہوتی ہے، اور اس وقت پی ٹی آئی کو کتنے ارکان کی حمایت حاصل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم اور اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی خبریں، بیرسٹر گوہر نے خاموشی توڑ دی

قومی اسمبلی کی کل 336 نشستوں میں سے 313 نشستوں پر اراکین منتخب ہوئے ہیں 23 مخصوص نشستوں کا ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے، تحریک عدم اعتماد کامیاب کرنے کے لیے 313 کے نصف سے زائد یعنی 157 ارکان کی حمایت درکار ہوگی اس وقت اپوزیشن اتحاد کے پاس 101 جبکہ حکومت کو 211 اراکین کی حمایت حاصل ہے، پی ٹی آئی کو مزید 56 ارکان کی حمایت درکار ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کو تحریک عدم اعتماد کامیاب کرنے کے لیے سب سے پہلے تمام اپوزیشن کی حمایت حاصل کرنا ضروری ہوگی، اس کے علاوہ اگر ایم کیو ایم یا دیگر حکمران جماعتیں مل کر بھی پی ٹی آئی کا ساتھ دیں تب بھی تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہ سکتی، البتہ اگر صرف پیپلز پارٹی کے کل 60 اراکین پی ٹی آئی کی حمایت کرتے ہیں تو اپوزیشن اور پیپلز پارٹی اراکین کے ووٹوں سے تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگی اور یوں شہباز شریف حکومت ختم ہوسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:پی ٹی آئی نے تحریک عدم اعتماد لائی تو اس کا رہا سہا بھرم بھی ختم ہوجائے گا، خواجہ آصف

ملک بھر میں 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعد کسی بھی جماعت کو قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل نہیں ہوئی تھی، عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ 93 آزاد امیدوار کامیاب ہوئے جن کی تعداد سب سے زیادہ تھی، پاکستان مسلم لیگ ن 75 جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی 54 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ متحدہ قومی موومنٹ کو 17، آزاد اراکین کو 9، جمعیت علما اسلام کو 5 اور مسلم لیگ ق کو 3 نشستیں حاصل ہوئیں۔

مسلم لیگ ضیا، مجلس وحدت المسلمین، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)، نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کو ایک، ایک نشست پر کامیابی حاصل ہوئی۔

قومی اسمبلی کی پارٹی پوزیشن لسٹ کے مطابق حکمراں اتحاد میں ن لیگ کے پاس اس وقت 87 جنرل نشستیں، خواتین کی 20 اور 4 اقلیتوں کی مخصوص نشستوں سمیت مجموعی طور پر 111 نشستیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک عدم اعتماد کی خبروں پر اسپیکر قومی اسمبلی کا پی ٹی آئی کو چیلنج

دیگر اتحادیوں میں پیپلز پارٹی کی قومی اسمبلی میں 54 جنرل، 13 خواتین اور 2 اقلیتی نشستوں کے ساتھ کل تعداد 69 ہے، ایم کیو ایم 5 مخصوص نشستوں کے ساتھ 22، مسلم لیگ ق کی 1 مخصوص نشست کے ساتھ 5 نشستیں، استحکام پاکستان پارٹی کی ایک مخصوص نشست کے ساتھ 4 نشستیں جبکہ مسلم لیگ ضیا، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کی قومی اسمبلی میں ایک ایک نشست ہے۔

الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کی 60 خواتین اور 10 اقلیتوں کی مخصوص نشستوں میں سے بالترتیب 40 اور 7 نشستیں پہلے سے سیاسی جماعتوں کو الاٹ کردی تھی کیونکہ اس وقت تک سنی اتحاد کونسل کے کوٹے میں آنے والی 23 نشستوں کا فیصلہ نہیں ہوسکا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp