بنگلہ دیش میں 2012 سے زیر حراست جماعت اسلامی کے رہنما اظہر الاسلام کو سپریم کورٹ نے انسانیت کے خلاف جرائم کے مقدمہ سے بری کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دیا۔
1952 میں پیدا ہونیوالے اظہر الاسلام سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کے دور میں سزائے موت پانے والے 6 سینیئر سیاسی رہنماؤں میں شامل تھے۔
بطور وزیر اعظم حسینہ واجد کی 15 سالہ طویل آمرانہ حکومت کا اگست 2024 میں خاتمہ ہوا، جب طلبا کی قیادت میں بپا ہونیوالی ایک بغاوت نے انہیں بھارت فرار ہونے پر مجبور کیا۔
یہ بھی پڑھیں: جماعت اسلامی کا بنگلہ دیش کے قیام سے اب تک کے واقعات پر وائٹ پیپر شائع کرنے کا مطالبہ
سیاسی جماعتیں، بشمول جماعت اسلامی، بہت زیادہ متوقع عام انتخابات کے لیے تیار ہیں جن کا عبوری حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ جون 2026 تک منعقد ہوں گے۔
اظہر الاسلام کے وکیل ششیر منیر نے کہا کہ ان کے موکل خوش قسمت ہیں کیونکہ 4 جماعت اسلامی اور ایک بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کے سینیئر رہنماؤں کو سنائی گئی سزا پر پہلے ہی عملدرآمد کرتے ہوئے پھانسی دی جا چکی ہے۔
وکیل منیر نے صحافیوں کو بتایا کہ انہیں انصاف ملا کیونکہ وہ زندہ تھے، اپیلٹ ڈویژن انسانیت کے خلاف جرائم کے دیگر مقدمات میں شواہد کا جائزہ لینے میں ناکام رہا۔
مزید پڑھیں: موجودہ حالات میں بنگلہ دیش ناکام ہوا تو کوئی جائے پناہ نہیں ہوگی، امیرجماعت اسلامی بنگلہ دیش
اظہر الاسلام کو 2014 میں بنگلہ دیش کی 1971 کی پاکستان سے آزادی کی جنگ کے دوران مبینہ طور پر عصمت دری، قتل اور نسل کشی کے جرم میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔
جماعت اسلامی نے جنگ کے دوران متحدہ پاکستان کی حمایت کی تھی، جماعت اسلامی کا یہ کردار آج بھی بہت سے بنگلہ دیشیوں میں جماعت مخالف جذبات کا باعث ہے۔
جماعت اسلامی کے رہنما حسینہ واجد کے والد اور عوامی لیگ کے شیخ مجیب الرحمان کے حریف تھے، جو بنگلہ دیش کے بانی بنے، حسینہ واجد نے اپنے دور حکومت میں جماعت اسلامی پر پابندی عائد کی اور اس کے رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا۔
مزید پڑھیں: بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی پر عائد پابندی ہٹا دی گئی
اظہر الاسلام نے 2015 میں سزائے موت کے فیصلے کیخلاف اپیل دائر کی تھی، تاہم عدالت نے 2019 میں فیصلے کو برقرار رکھا جس کے بعد انہوں نے 2020 میں نظرثانی کی درخواست دائر کی۔
جب طلبا تحریک نے عوامی بغاوت کا رنگ غالب آگیا تو بنگلہ دیش کے عوام کے ہجوم نے 77 سالہ حسینہ واجد کے ڈھاکا میں قائم محل پر دھاوا بول دیا، حسینہ واجد وہاں سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھارت فرار ہوگئیں، جہاں وہ خود ساختہ جلاوطنی میں مقیم ہیں، جبکہ ان کی جماعت عوامی لیگ پر پابندی عائد کی جاچکی ہے۔
بھارت نے ڈھاکہ کی جانب سے حسینہ واجد حوالگی کی درخواست کو مسترد کر دیا ہے، سابق بنگلہ دیشی وزیر اعظم کو، جنہوں نے اقتدار پر پنجے جمانے کی ناکام کوشش میں کم از کم 1,400 مظاہرین کو ہلاک کر دیا تھا، گزشتہ برس طلبا کیخلاف کریک ڈاؤن سے متعلق انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات کا سامنا ہے۔
مزید پڑھیں: بنگلہ دیش میں عوامی لیگ پر پابندی کے مطالبے نے شدت اختیار کرلی
حسینہ واجد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد، ظہیرالاسلام نے 27 فروری کو ایک اپیل دائر کرتے ہوئے اپنی سزا کے خلاف دوبارہ اپیل کی، جس پر منگل کو چیف جسٹس سید رفعت احمد کی سربراہی میں فل بینچ نے انہیں تمام الزامات سے بری کردیا۔
اس موقع پر جماعت اسلامی کے حامیوں نے جشن منایا، رہنما جماعت اسلامی بنگلہ دیش شفیق الرحمان نے صحافیوں کو بتایا کہ پارٹی ان لوگوں کو بھی یاد کر رہی ہے جنہیں پھانسی دی گئی تھی، کیونکہ وہ عدالتی قتل کا نشانہ بنے تھے۔
شفیق الرحمان کا کہنا تھا کہ بحیثیت فرد یا ایک جماعت ان کی جماعت غلطیوں سے بالاتر نہیں، ہم آپ سے معافی چاہتے ہیں، اگر ہم نے کچھ غلط کیا ہے، انہوں نے مزید کسی سوال کا جواب یا وضاحت دیے بغیر اپنا بیان مکمل کیا۔