بنگلہ دیش میں عوامی لیگ پر پابندی کے مطالبے نے شدت اختیار کرلی

جمعہ 21 مارچ 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جمعرات کی رات دیر گئے ایک فیس بک پوسٹ میں بنگلہ دیش کے انقلابی طالبعلم رہنما اور نو تشکیل شدہ نیشنل سٹیزنز پارٹی کے اہم عہدیدار حسنات عبداللہ نے الزام لگایا ہے کہ بھارت کی سرپرستی میں عوامی لیگ کی بحالی کے لیے ایک سازش کی جارہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش میں جاتیہ ناگورک پارٹی کا آغاز، نئے آئین سمیت ’دوسری جمہوریہ‘ کا مطالبہ

عوامی لیگ کی سابق وزیر اعظم حسینہ واجد کی حکومت کا تختہ الٹنے والی بغاوت کے اہم کردار حسنات عبداللہ نے رات گئے اپنی فیس بک پوسٹ پر 11 مارچ کو کنٹونمنٹ میں اپنے اور این سی پی سے تعلق رکھنے والے دو دیگر افراد کے درمیان ممکنہ طور پر فوجی قیادت کے درمیان ہونے والی ایک اہم میٹنگ کی تفصیلات کا ذکر کیا ہے۔

حسنات عبداللہ کے مطابق اس ملاقات میں سابق حکمراں جماعت عوامی لیگ کو مرکزی دھارے کی سیاست میں واپس لانے کے لیے ان کے سامنے ایک تجویز پیش کی گئی۔

’یہ تجویز پیش کی گئی کہ اگلے الیکشن میں سیٹوں کی تقسیم کے بدلے میں ہمیں یہ پیشکش قبول کر لینی چاہیے، ہمیں بتایا گیا کہ یہی تجویز متعدد سیاسی جماعتوں کو پیش کی گئی تھی اور بعض شرائط کے ساتھ وہ عوامی لیگ کی بحالی پر رضامند ہو گئے تھے۔‘

مزید پڑھیں: کیا بنگلہ دیش کی ’تحریک انصاف‘ کامیاب ہو پائے گی؟

حسنات عبداللہ کے مطابق یہ تجویز کیا گیا کہ ایک کمزور عوامی لیگ کے ساتھ متعدد اپوزیشن جماعتوں کا ہونا صرف ایک اپوزیشن جماعت سے بہتر ہوگا، اس کے نتیجے میں، پچھلے دو دنوں میں آپ نے دیکھا ہوگا کہ بہت سے سیاستدان میڈیا پر عوامی لیگ کے حق میں بول رہے ہیں۔

حسنات عبداللہ نے کہا کہ یہ اقدام بھارت کی جانب سے ترتیب دیا جا رہا ہے اور منصوبہ یہ تھا کہ سابق ایم پی صابر حسین چودھری، سابق اسپیکر شیریں شرمین چودھری، اور ڈھاکہ جنوبی کے سابق میئر فضل نور تاپوش کو ایک ’بدلی ہوئی عوامی لیگ‘ کے چہروں کے طور پر رکھا جائے۔

حسنات عبداللہ کے مزید لکھا کہ انہیں بتایا گیا کہ مئی کے بعد یہ بدلی ہوئی ’صاف عوامی لیگ’ شیخ خاندان کے جرائم کا اعتراف کرنا شروع کرتے ہوئے حسینہ واجد کو مسترد کر دے گی اور عوام کے سامنے بنگا بندھو کی عوامی لیگ کی بحالی کا وعدہ کرے گی۔

حسنات عبداللہ نے کہا کہ انہوں نے فوری طور پر اس تجویز کو مسترد کرتےہوئے تجویز کاروں کو بتایا کہ عوامی لیگ کی بحالی کے بجائے انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے کام کرنا چاہیے۔

مزید پڑھیں: بنگلہ دیش سے فرار ہونے والی حسینہ واجد کی عبوری حکومت پر الزامات کی بھرمار

’جواب میں ہمیں بتایا گیا کہ اگر ہم عوامی لیگ کی واپسی پر اعتراض کرتے ہیں، تو ہم اس سے ملک میں پیدا ہونے والے بحران کے ذمہ دار ہوں گے اور یہ کہ عوامی لیگ کو واپس آنا چاہیے۔‘

حسنات عبداللہ کے مطابق بات چیت کے ایک مرحلے پر انہوں نے پوچھا کہ اس پارٹی کو کیسے معاف کیا جاسکتا ہے، جس نے ابھی تک معافی نہیں مانگی یا اپنے جرائم کا اعتراف نہیں کیا۔

’دوسری طرف سے غصے سے جواب دیا گیا کہ آپ لوگ کچھ نہیں جانتے، آپ تجربہ اور ذہانت نہیں رکھتے، ہم کم از کم 40 سال سے اس کھیل میں ہیں، اس وقت سے جب آپ پیدا بھی نہیں ہوئے تھے، اس کے علاوہ عوامی لیگ کے بغیر کوئی انتخاب نہیں ہو سکتا۔’

مزید پڑھیں: حسینہ واجد کے ’آئینہ گھر‘ بنگلہ دیش میں خوف کی علامت کیوں تھے؟

حسنات عبداللہ نے کہا کہ انہوں نے سمجھوتہ نہیں کیا اور واضح کیا کہ عوامی لیگ کے ساتھ کوئی شمولیت نہیں ہو سکتی۔ ’اگر عوامی لیگ کو واپس لانا ہے تو یہ ہماری لاشوں کے اوپر ہوگا، اگر عوامی لیگ کو واپس لانے کی کوشش کی گئی تو جو بحران پیدا ہو گا اس کے ذمہ دار آپ ہوں گے۔‘

حسنات عبداللہ کی فیس بک پوسٹ پر فوری ردعمل کی صورت میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبا کے ایک گروپ نے جمعہ کی صبح ہی کیمپس میں ایک جلوس نکال کرعوامی لیگ پر پابندی کا مطالبہ کیا۔

دوسری جانب جماعت اسلامی کے سربراہ ڈاکٹر شفیق الرحمٰن نے بھی اپنے تصدیق شدہ فیس بک پیج پر جمعہ کو صبح سویرے ایک پوسٹ میں پہلی بار حسنات عبداللہ کے ساتھ اس ضمن  میں ہم آہنگ ہوتے ہوئے ایک بیان دیا جس کا عنوان تھا ’عوامی لیگ کی بحالی کو عوام قبول نہیں کریں گے۔‘

عوامی لیگ پر پابندی لگانے کا براہ راست مطالبہ کیے بغیر جماعت اسلامی کے رہنما نے اس وقت قوم کے سامنے پہلی ترجیح کے طور پر انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے پر زور دیا، انہوں نے تمام فریقین پر اس مقصد کی خاطر متحد رہنے پر زور دیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp