مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف حکومتی نظر ثانی اپیل کی سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے دریافت کیا کہ کیا جج آئینی اسکوپ سے باہر جا کر فیصلہ دے سکتے ہیں، عوامی امنگوں اور جمہوریت کے لیے ہی سہی، مگر کیا جج آئین ’ری رائٹ‘ کرسکتے ہیں، سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کا مؤقف تھا کہ آئین ’ری رائٹ‘ نہیں کیا گیا، جس پر جسٹس مسرت ہلالی بولیں؛ ری رائٹ کیا گیا، 3 دن کی مدت کو بڑھا کر 15 دن کیا گیا۔
مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف حکومتی نظر ثانی اپیل پر جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی، سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے اپنے دلائل جاری رکھے۔
فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ کچھ فریقین نے اضافی گزارشات جمع کروائی ہیں، مجھے ان کی نقول آج ملی ہیں اب ان کو دیکھوں گا، جسٹس جمال مندوخیل نے مسلم لیگ ن کے وکیل حارث عظمت سے سوال کیا کہ ایک جماعت کے امیدواروں کو آزاد کیسے ڈیکلئیر کر دیاگیا،کیا آپ نے اپنی تحریری گزارشات میں اس کا جواب دیا۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: مخصوص نشستیں کیس، لائیو نشریات اور بینچ پر اعتراضات زیر بحث
وکیل حارث عظمت کا کہنا تھا کہ انہوں نے جواب دینے کی کوشش کی ہے، اس موقع پر فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ کچھ درخواستوں میں سپریم کورٹ رولز کو مدنظر نہیں رکھا گیا، ان درخواستوں کو مسترد کیا جائے۔
وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان گھوڑا ہے مگر حامد رضا نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا، انہوں نے آزاد حیثیت میں الیکشن کیوں لڑا اس کا جواب دوں گا، جسٹس جمال خان مندوخیل بولے؛ ہمارے سامنے یہ معاملہ نہیں ہے کون کیسے لڑا۔
جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ انہیں ان کے سوال کا تسلی بخش جواب نہیں ملا، صاحبزادہ حامد رضا کی 2013 سے سیاسی جماعت موجود ہے، جو جماعت الیکشن لڑے وہی پارلیمانی پارٹی بناتی ہے، وہ اپنی جماعت سے نہیں لڑے پھرپارلیمانی جماعت کیوں بنائی۔
مزید پڑھیں: تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں نہیں ملیں گی، فیصل واوڈا کا دعویٰ
جسٹس مسرت ہلالی کا مؤقف تھا کہ مخصوص نشستوں کے فیصلے میں کہا گیا ووٹ بنیادی حق ہے جبکہ ووٹ بنیادی حق نہیں ہے، فیصلے میں 3 دن کو بڑھا کر 15 دن کرنا آئین دوبارہ تحریر کرنے کے مترادف تھا، فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ 11 ججز نے آزاد امیدواروں کو پی ٹی آئی کا تسلیم کیا۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ 39 امیدواروں کی حد تک وہ اور قاضی فائز عیسی بھی 8 ججز سے متفق تھے، جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی پی ٹی آئی کو پارٹی تسلیم کیا، جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی کہا پی ٹی آئی نشستوں کی حقدار ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر کے مطابق اقلیتی ججز نے انہی گراونڈز پر پی ٹی آئی کو مانا جس پر اکثریتی ججز نے مانا تھا، وکیل فیصل صدیقی کا مؤقف تھا کہ اب نظر ثانی درخواستوں میں ان اقلیتی فیصلوں پر انحصار کیا جا رہا ہے، دوسری جانب درخواستوں میں کہا گیا پی ٹی آئی کو ریلیف مل ہی نہیں سکتا تھا۔
وکیل فیصل صدیقی کے مطابق نظرثانی ان فیصلوں پر انحصار کرکے کیسے لائی جا سکتی ہے، ان فیصلوں میں تو پی ٹی آئی کو پارٹی تسلیم کیا گیا ہے، جسٹس صلاح الدین پنہور بولے؛ نظرثانی لانے والوں نے تو جس فیصلے کو چیلنج کیا اسے ہمارے سامنے پڑھا ہی نہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر کے مطابق اقلیتی ججز نے انہی گراونڈز پر پی ٹی آئی کو مانا جس پر اکثریتی ججز نے مانا تھا، وکیل فیصل صدیقی کا مؤقف تھا کہ اب نظر ثانی درخواستوں میں ان اقلیتی فیصلوں پر انحصار کیا جا رہا ہے، دوسری جانب درخواستوں میں کہا گیا پی ٹی آئی کو ریلیف مل ہی نہیں سکتا تھا۔
وکیل فیصل صدیقی کے مطابق نظرثانی ان فیصلوں پر انحصار کرکے کیسے لائی جا سکتی ہے، ان فیصلوں میں تو پی ٹی آئی کو پارٹی تسلیم کیا گیا ہے، جسٹس صلاح الدین پنہور بولے؛ نظرثانی لانے والوں نے تو جس فیصلے کو چیلنج کیا اسے ہمارے سامنے پڑھا ہی نہیں۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کو آسانی سے مخصوص نشستیں نہیں ملیں گی، شیر افضل مروت
جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ کیا جج آئینی اسکوپ سے باہر جا کر فیصلہ دے سکتے ہیں، عوامی امنگوں اور جمہوریت کے لیے ہی سہی، مگر کیا جج آئین ری رائٹ کرسکتے ہیں، وکیل فیصل صدیقی کا مؤقف تھا کہ کوئی آئین ’ری رائٹ‘ نہیں کیا گیا، جس پر جسٹس مسرت ہلالی بولیں؛ ری رائٹ کیا گیا، 3 دن کی مدت کو بڑھا کر 15 دن کیا گیا۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ اکثریتی ججز نے کہا مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو ملنی چاہییں، جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ یہ آپ اپنے لیے مسائل پیدا کر رہے ہیں، جس پر فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ ہمیں کوئی مسئلہ نہیں نشستیں پی ٹی آئی کو ملیں یا ہمیں ایک ہی بات ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل فیصل صدیقی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی فلم تو پھر فلاپ ہوجائے گی، جس پر فیصل صدیقی بولے؛ فلم آپ کی مرضی سے فلاپ ہونی ہے آپ کا فیصلہ قبول ہوگا، جمہوریت میں سب کو برابر کے حقوق ملنے چاہییں، پی ٹی آئی امیدواروں کو جان بوجھ کر حقوق نہیں دیے گئے۔
مزید پڑھیں: مخصوص نشستوں کا معاملہ: جسٹس عائشہ ملک کا چیف جسٹس کے نام شکایتی خط
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ جمہوریت کی بات کی گئی، کیا امیدواروں کا اپنی مرضی سے فیصلہ کرنا جمہوریت نہیں، کسی کو زبردستی دوسری جماعت میں شمولیت کے لیے مجبور تو نہیں کیا جاسکتا، جو آزاد امیدوار کسی اور پارلیمانی جماعت میں جانا چاہیں جاسکتے ہیں۔
وکیل فیصل صدیقی نے مؤقف اختیار کیا کہ اس ساری صورتحال میں الیکشن کمیشن کا کردار اہم ہے، جس نے پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد ڈیکلیئر کیا، اس موقع پر جسٹس امین الدین خان بولے؛ فیصل صدیقی، آپ باربارپیچھے کی طرف جا رہے ہیں۔
فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ آپ کے سامنے پہلی بار 13 رکنی بینچ کے فیصلے پر نظرثانی آئی ہے، جس فیصلے پر نظرثانی آئی وہ ابھی تک آپ کے سامنے پڑھا ہی نہیں گیا، حیران ہوں آپ کہتے ہیں اکثریتی فیصلہ نظرثانی میں پڑھا ہی نہ جائے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ کیوں گلہ کر رہے ہیں، آپ کو کس نے روکا ہے فیصلہ پڑھنے سے۔
جسٹس جمال مندوخیل کے مطابق تحریک انصاف انٹرا پارٹی کیس فیصلے کے بعد بھی جماعت تھی، اس معاملے پر پی ٹی آئی کو بھی کوئی غلط فہمی نہیں تھی، اگر غلط فہمی ہوتی وہ پارٹی سرٹیفکیٹ جاری نہ کرتے، وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ پورا پاکستان دیکھ رہا ہے لہذا وہ اقلیتی فیصلہ بھی پڑھنا چاہیں گے۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ وہ جسٹس امین الدین خان کے فیصلے سے متفق نہیں مگر بڑا ’فورس فل‘ فیصلہ تھا، انہوں نے جسٹس امین کے فیصلے پر غالب کا شعر بھی سنایا اور جسٹس امین الدین سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی چیل کی طرح مجھ پر نگاہ ہے، جس پر جسٹس امین الدین بولے؛ اس کے باوجود آپ اتنا وقت لے رہے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے فیصل صدیقی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تعریف کرنا ویسے کوئی آپ سے سیکھے، جس پر فیصل صدیقی نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ چیل نہیں، عقاب کی طرح بولنا تھا۔
مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں کے معاملے پر سپریم کورٹ کی وضاحت چیلنج کردی
وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کو انتخابات لڑنے سے روکا گیا، جس پر جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ آئین سے بتا دیں کہ جماعت انتخابات لڑتی یا امیدوار ؟ کیسے کہہ رہے پارٹی انتخابات میں حصہ لیتی، فیصل صدیقی بولے؛ پارٹی کے امیدوار انتخابات لڑتےہیں، مشترکہ نشان کا یہی مطلب ہے، سیاسی جماعت کے پاس انتخابات لڑنے کا حق بھی ہے، جسٹس جمال مندوخیل کا مؤقف تھا کہ کوئی امیدوار پارٹی کے نشان پر انتخابات لڑنا چاہتا ہے تو وہ پارٹی سے سرٹیفیکیٹ لےگا۔
مخصوص نشستوں سے متلعق سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف نظرثانی کیس کی سماعت 16 جون ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی گئی۔