سوشل میڈیا پر ممتاز واعظ اور عالم دین مولانا طارق جمیل صاحب کی ایک آڈیو وائرل ہے، جس میں مولانا طارق جمیل تبلیغی جماعت پاکستان کے ذمہ داران سے اپنے گلے شکوے کر رہے ہیں۔ کہیں 13 منٹ اور کہیں 15 منٹ کی آڈیو دستیاب ہے جو مولانا کے دو تین مختلف میسجز کو جوڑ کر بنائی گئی۔
مولانا کے صاحبزادے مولانا یوسف جمیل کی ایک باون منٹ طویل آڈیو بھی منظر پر آ چکی ہے جو غیر ضروری طوالت، بوریت اور بے مغز گفتگو کا ایک “مثالی” نمونہ ہے۔ حیرت ہے کہ مولانا طارق جمیل جیسے مقبول اور دلچسپ گفتگو کرنے والے واعظ کا بیٹا ایسی بے رس، کشش سے عاری گفتگو کرتا ہے۔
مولانا طارق جمیل کی آڈیو کا جواب بھی کئی لوگوں نے سوشل میڈیا پر دیا ہے۔ بعض نے ان پر تندوتیز حملے کئے ہیں۔ حیرت انگیز طور سے مولانا فضل الرحمن کی جے یوآئی کے لوگ اس میں پیش پیش نظر آئے ہیں۔ لگتا ہے وہ مولانا طارق جمیل سے خاصے عرصے سے ناراض تھے اور اب انہیں اپنا غصہ نکالنے کا موقعہ ملا ہے۔ ان لوگوں نے باقاعدہ مولانا طارق جمیل کو سوشل میڈیا پر ٹرول کرنے کی کوشش کی۔ کہا جا رہا ہے کہ چونکہ مولانا طارق جمیل نے ایک دو بار عمران خان کے حق میں بات کی اور جب وہ وزیراعظم تھے تب مولانا ان سے جا کر ملے اور خان کی تعریف کی۔ تب سے مولانا فضل الرحمن کے حامی مولانا طارق جمیل سے خفا اور ناخوش تھے۔
مولانا طارق جمیل کی آڈیو پرتنقید کرنے والی ایک ویڈیو میں ایک مولوی صاحب نے سیدھا مولانا کو گستاخ صحابہ قرار دے دیا۔ معلوم نہیں یہ مبنی بر غلط نتیجہ کہاں سے اخذ کیا گیا؟ بات وہی ہے کہ ہمارا مذہبی طبقے کا ایک حصے مخالفت میں شدت اور انتہا تک چلا جاتا ہے اور اس میں وہ فتوے بازی سے بھی گریز نہیں کرتے۔ البتہ بعض لوگوں نے اس حوالے سے معتدل بات کی ہے اور مولانا طارق جمیل کو مشورہ دیا ہے کہ وہ تبلیغی جماعت کے ذمہ داران کے ساتھ اپنے ان اختلافات کو منظرعام پر نہ لے آتے ۔ ان کا خیال ہے کہ یہ معاملہ کمرے میں بیٹھ کر سلجھانے والا ہے نہ کہ سوشل میڈیا پر بات کی جائے وغیرہ وغیرہ۔
مولانا طارق جمیل کا میں کوئی خاص مداح نہیں ہوں، ملی جلی درمیانی سی بلکہ کہہ لیں ایک غیر جانبدار سی معتدل رائے ان کے بارے میں ہے۔ وہ اچھے واعظ ہیں، ہمارے گھر میں ان کی تقریریں میری خوشدامن صاحبہ شوق سے سنتی ہیں، کبھی اہلیہ بھی سن لیتی ہیں۔رمضان میں اکثر ایسا ہوتا ہے۔ کبھی خاکسار کو بھی یہ ان سب کی معیت میں یہ ’’سعادت‘‘ نصیب ہو جاتی ہے۔ کبھی ہم سنتے رہے اور کبھی کچھ دیر کے بعد آرام سے چینل تبدیل کر ڈالا۔ یہی رویہ جناب ڈاکٹر زاکر نائیک کے حوالے سے بھی روا رکھتے ہیں۔ احترام کے ساتھ مناسب فاصلہ۔
مولانا کا مخصوص تبلیغی جماعت والا سٹائل ہے ، ایک بات مجھے اچھی لگی کہ انہوں نے سوشل موضوعات پر زیادہ تقریریں کی ہیں۔ وہ خواتین کے حق میں بڑا کھل کر بات کرتے ہیں، مردوں کو اپنی بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کی نصیحت کرتے ہیں، نرمی، حسن اخلاق ، دیانت داری اور دیگر اوصاف جن کا تعلق معاملات سے ہے، ان کی تاکید کرتے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے، عام طور پر ہمارے مولوی صاحبان ان اہم ایشوز پر زیادہ فوکس نہیں کرتے۔ مولانا طارق جمیل کی یہ بات اچھی لگی۔
مولانا طارق جمیل میں اہل بیت کے لئے گہری محبت جھلکتی ہے، اس حوالے سے انہوں نے کئی بڑی شاندار تقریریں بھی کر رکھی ہیں۔ ویسے کون سا مسلمان ہوگا جسے اہل بیت اور آل رسول ﷺ سے محبت نہیں ہوگی۔ اس کے بغیر تو ہمارا ایمان ہی مکمل نہیں ہوتا۔ اہل بیت اور صحابہ سے محبت ہمارے عقیدے کا حصہ ہے۔
مولانا طارق جمیل کا طرز استدلال روایتی ہے،فکر بھی روایتی ہے۔ سیاستدانوں اور لیڈروں سے وہ ملتے جلتے رہتےہیں، مگر ہمارے جیسے لوگوں کو اس سے کوئی مسئلہ نہیں۔ داعی کے طور پر انہیں اہم حلقوں میں جانا چاہیے۔ وہ ماضی میں میاں نواز شریف سے ربط رکھتے تھے یاعمران خان سے رابطے میں رہے، چودھریوں کے ساتھ بھی ملتے رہے۔ ٹھیک ہے۔
مولانا طارق جمیل کی جانب سے شریف خاندان سے ملاقاتوں ، ان کے لئے دعا کرنے پر کوئی اعتراض ہونا چاہیے اور نہ ہی عمران خان یا کسی اور سیاستدان سے ملنے جلنے ، ان سے حسن ظن رکھنے پر کوئی شکوہ کیا جائے۔ س حوالے سے ایک داعی کو سپیس ملنی چاہیے۔ عمران خان سے ملاقات اور ریاست مدینہ کے حوالے سے ان کے تصور کی تحسین کے باوجود کہیں پر کسی بھی جگہ مولانا طارق جمیل نے شریف خاندان یا دیگر سیاسی جماعتوں کے خلاف ایک جملہ یا ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ یہ اہم نکتہ ہے۔
چند سال قبل مولانا طارق جمیل کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک کمپین چلی تھی جب یہ خبر آئی کہ کپڑوں کا ایک برانڈ انہوں نے کراچی کے کسی کاروباری کے ساتھ مل کر شروع کیا ہے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ مولانا طارق جمیل کے کپڑوں کا کاربار کرنے کے فیصلے پر سوشل میڈیا میں بعض احباب نے غیر ضروری طنزیہ پوسٹیں لگائیں۔ اس کی وجہ ناقابل فہم لگی۔ کاروبار کرنا ہر ایک شخص کا حق ہے، مولانا طارق جمیل کو بھی پورا حق حاصل ہے کہ وہ اپنے نام کا برانڈ لے آئیں۔
مولانا کی جانب سے وضاحت آئی کہ اس آمدنی کو وہ خیراتی مقاصد کے لئے استعمال کریں گے۔ اس کا انہیں حق ہے، مگر کاروبار کر کے خوشحال ہونے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ ہمارے اکابر علما کاروبار کرتے رہے اور آمدن کا بڑا حصہ خیراتی امور پر بھی خرچ ہوتا رہا، مگر وہ اپنے اور اہل خانہ کی کفالت بھی اسی سے کرتے تھے۔
مجھے تو لگتا ہے کہ مولانا طارق جمیل کی ایک ہی بڑی خامی اور کمزوری ہے۔ ان کی عوامی مقبولیت۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ پاکستان کے مقبول ترین مقررین میں سے ایک ہیں۔ ان کی گفتگواور تقریر کے لاکھوں بلکہ شائد کروڑوں مداح ہیں۔ ایسی مقبولیت، شہرت اور نیک نامی ہمارے قریب کے زمانے میں شائد ہی کسی کو ملی ہو۔
مولانا طارق جمیل نے تبلیغ میں بہت وقت لگایا، ان کی تین چوتھائی زندگی اسی میں صرف ہوگئی۔ خود کہتے ہیں کہ اٹھارہ انیس برس کی عمر سے اس طرف لگے اور اب وہ ستر کے پیٹے میں ہیں، پچاس پچپن برس انہوں نے تبلیغی جماعت کے ساتھ لگا دیے۔
پچیس چھبیس سال قبل شیخ زائد ہسپتال کے چند ڈاکٹروں کے ساتھ ہمیں بھی ایک سہہ روزہ لگانے کا موقعہ ملا۔ اس سفر میں مولانا طارق جمیل کے بارے میں کئی کہانیاں سنیں۔ وہ زمیندار گھرانے کے فرزند ہیں، غالباً میڈیکل کے طالب علم تھے کہ تبلیغ جماعت کے سحر میں گرفتار ہوئے ۔ اپنی پڑھائی چھوڑ کر دینی تعلیم حاصل کی اور پھر تبلیغی مرکز کی طرف ایسے متوجہ ہوئے کہ مڑ کر نہیں دیکھا۔
مولانا طارق جمیل کو شہرت ممکن ہے ابتدا میں تبلیغی جماعت کی وجہ سے ملی ہو، مگر ہم نے تو طویل عرصے سے ان کی وجہ سے لوگوں کو تبلیغی جماعت اور دین کی طرف متوجہ ہوتے دیکھا ہے۔ ان کی سوشل ایشوز پر کی گئی تقریروں نے بہت لوگوں کو تبدیل کیا۔ مرد حضرات نرم خو ہوئے، خواتین کے ساتھ ان کا برتائو بہتر ہوا۔ اسی طرح ٹی وی چینلز پر مولانا طارق جمیل کی تقریروں کی وجہ ان کی تبلیغی جماعت کے ساتھ وابستگی ہرگز نہیں۔ وہ ذاتی طور پر ایک قدآور بلکہ دیوقامت مبلغ، مقرر اور واعظ بن چکے ہیں۔
کہتے ہیں ہر چیز کی ایک قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ عوامی مقبولیت اور پزیرائی کی قیمت اکثر دوسروں کے حسد اور کبھی نفرت کی صورت میں چکانی پڑتی ہے۔ مولانا طارق جمیل بھی لگتا ہے بہت سوں کے حسد کا شکار ہوئے ہیں۔ ان کی موجودگی میں کسی دوسرے کا چراغ جلنا آسان نہیں۔ ایسے میں اچھے بھلے لوگوں کی انا مجروح ہوتی ہے اور وہ ردعمل کی نفسیات کا شکار ہوجاتے ہیں۔
مولانا طارق جمیل نے اپنی ویڈیو میں جو شکوے کئے وہ ان کے درد دل ، کرب اور تکلیف کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ سب وہ کئی برسوں بلکہ شائد عشروں سے سہہ رہے تھے۔ پہلے شائد ایسا کرنے والے نسبتاً بڑے لوگ ہوں گے ، ان کا اختلاف بھی شائد کسی قرینے سے ہوگا، اب تو لگتا ہے اپنی انا کے اسیر اوسط درجے کے لوگ اس ڈھلتی عمر میں مولانا طارق جمیل پر حملہ آور ہوئے ہیں تو ان کی برداشت بھی جواب دے گئی ۔
مفتی زاہد صآحب کا تعلق فیصل آباد کی معروف دینی درسگاہ سے ہے، وہ ایک متین، نہایت معقول اور مدلل گفتگو کرنے والے معروف دینی سکالر ہیں۔ ان کا تعلق تحریک انصاف سے نہیں بلکہ غالباً اس کے ناقدین میں ہیں۔ انہوں نے مولانا طارق جمیل کے حوالے سے تازہ قضیہ پر اپنی فیس بک پوسٹ میں لکھا ہے، ” مولانا طارق جمیل صاحب کے ساتھ مانسہرہ میں کیا ہوا، اس کے بعد مولانا نے کیا کہا اور ان کی حمایت اور مخالفت میں کیا کہا گیا ان میں سے کسی چیز پر میں کوئی تبصرہ نہیں کروں گا تاہم ایک تصحیح ضروری ہے وہ یہ کہ موجودہ تناظر میں مولانا کی جو خامیاں بیان کی جا رہی ہیں کہ انھوں نے ایک سیاسی پوزیشن لی ہوئی ہے، وہ میڈیا اور سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں، وہ یو ٹیوب پر کاپی رائٹ استعمال کرتے ہیں اور یہ کہ وہ اپنے بیٹے کے بہت زیادہ زیرِ اثر ہیں، وہ بیٹے کے دباؤ میں فاؤنڈیشن کے لیے فنڈ ریزنگ کرتے ہیں ان معاملات پر آپ کی جو بھی رائے ہو میں کچھ نہیں کہتا البتہ تبلیغ والوں کے ہاں مولانا کی معتوبیت ان تمام چیزوں کے پیدا ہونے سے بہت پہلے کی ہے۔
کم از کم اکیسویں صدی کے اوائل سے یعنی ربع صدی سے تو میں جانتا ہوں کہ وہ کئی تبلیغی حضرات کے ہاں کھٹکتے رہے ہیں اور کم از کم یہ حقیقت ناقابل انکار ہے کہ مولانا نے بہت برداشت کا ثبوت دیا اور انھوں نے نظم کی اطاعت کی. اس کھٹک میں آپ جسے بھی حق بجانب سمجھیں لیکن معاملہ مذکورہ بالا وجوہات پیدا ہونے سے بہت پرانا ہے، لہذا اس فلسفے کو درمیان میں نہ لایا جائے تو بہتر ہے۔”
میرا خیال ہے کہ جو ہونا تھا وہ ہوگیا، اب اس مسئلے کو مناسب طریقے سے حل ہونا چاہیے۔ رائے ونڈ مرکز کے ذمہ داران اگر اپنا دل بڑا اور ظرف کشادہ کر سکیں تو بات بڑی نہیں۔ مولانا طارق جمیل جیسے بڑے اور ہردلعزیز مقرر کو جو فنافی التبلیغی جماعت ہے ، اسے بیان کا موقعہ دینے میں کوئی حرج ہے نہ نقصان کا اندیشہ۔
مولانا طارق جمیل کو بھی چاہیے کہ وہ اس موضوع پر مزید کوئی آڈیو یا ویڈیو میسج سوشل میڈیا پر نہ دیں۔ اس سے بہرحال تبلیغی جماعت کے مقصد اور ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔ ایسا کہ بعد میں مولانا طارق جمیل خود بھی چاہنے کے باوجود اسے بحال نہیں کر پائیں گے۔
یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اس طرح اگر دینی طبقے میں اختلافات منظر عام پر آئیں تو اس سے مذہب بیزار اور علما کا تمسخر اڑانے والے احباب ہی خوش ہوں گے۔ اہل مذہب اور علما کے مداحین کا تو دل ہی دکھے گا۔ اللہ والوں اور اللہ کے دین کا کام کرنے والوں میں انتشار کی خبروں سے دلی کرب اور پریشانی ہی لاحق ہوگی۔ اللہ پاک ہم سب پر رحم فرمائے، آمین۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔