مردان سے تعلق رکھنے والا 14 سالہ جواد خان ایک روڈ حادثے میں سر پر شدید چوٹیں لگنے کے بعد پشاور کے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں داخل کیا گیا تھا تاہم جب اس کے بچنے کی امید باقی نہیں رہی تھی تب اس کے والدین نے اس کے اعضا عطیہ کرنے کا اعلان کردیا۔
یہ بھی پڑھیں: مردان کے عوام صحت کے انقلابی منصوبوں سے محروم
قبل ازیں کئی دن اسپتال میں داخل رہنے اور سرجری کے بعد بھی جواد کی حالت میں بہتری نہیں آئی اور ڈاکٹروں کے جواب دینے کے بعد اس کے خاندان نے جسمانی اعضا عطیہ کرکے دوسروں کی زندگیاں بچانے کا فیصلہ کیا۔
حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے ترجمان توحید ذوالفقار نے وی نیوز کو بتایا کہ جواد خان کا تعلق مردان سے تھا اور وہ 31 مئی کو اسکول جاتے ہوئے حادثے کا شکار ہوگیا تھا جس کے بعد اس کو حیات آباد میڈیکل کمپلیکس منتقل کر دیا گیا۔
ترجمان نے بتایا کہ اسپتال میں جواد کی جان بچانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی اور فوری طور پر سرجری بھی کی گئی اور کئی روز تک آئی سی یو میں وینٹی لیٹر پر رکھا گیا لیکن جواد کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آئی۔
مزید پڑھیے: پشاور: آوارہ دوستوں سے نہ ملنے کی نصیحت ماں کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی
توحید ذوالفقار نے بتایا کہ جواد کے گھر والے اپنے لخت جگر کی زندگی کی دعائیں کرتے ہوئے اسپتال سے ہلنے کا نام نہیں لے رہے تھے لیکن جب ڈاکٹرز نے دیکھا کہ مریض صرف مشین کے ذریعے زندہ ہے اور طبی طور پر مردہ ہو چکا ہے تو انہوں نے اہلخانہ کو اس حقیقت سے آگاہ کرتے ہوئے مریض کو وینٹی لیٹر سے ہٹانے کا مشورہ دیا۔ توحید نے بتایا کہ اہلخانہ خصوصاً جواد کے والد نورداد خان بات ماننے کو تیار نہیں تھے اور بضد تھے کہ بچے کو مشین پر ہی رکھا جائے۔
اسپتال کے ترجمان نے بتایا کہ 5 جون کو ڈاکٹرز نے جواد کے چچا کو بلا کر صورت حال سے آگاہ کیا جس پر لڑکے کے والد کو سمجھایا گیا کہ ان کا پیارا اب نہیں رہا لیکن اب وہ چاہیں تو جواد کے جسمانی اعضا عطیہ کرکے دوسروں کی زندگیاں بچا سکتے ہیں۔ خاصے مشوروں کے بعد اہلخانہ نے اسپتال انتظامیہ کو جسمانی اعضا نکال کر ضرورت مند مریضوں کو عطیہ کرنے کے لیے باقاعدہ طور پر درخواست دے دی۔
توحید ذوالفقار نے کہا کہ جواد کے والد نورداد خان نے ڈاکٹرز کو بتایا کہ وہ اپنے بیٹے کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں اس لیے اس کے اعضا عطیہ کرنے کا فیصلہ کر رہے ہیں۔ ترجمان نے بتایا کہ اہلخانہ کے فیصلے کی روشنی میں اسپتال انتظامیہ نے میٹنگ بلائی اور اسلام آباد سے بھی ایک طبی ٹیم آئی اور بالآخر اہلخانہ کی منشا کے مطابق جواد کے اعضا نکال لیے گئے۔
اسپتال کے ترجمان نے بتایا کہ ڈاکٹرز نے جواد خان کا جگر، گردے اور قرنیے نکالے جس سے 3 لوگوں کو نئی زندگیاں اور 2 کی آنکھوں کو روشنی مل گئی۔
توحید ذوالفقار نے بتایا کہ ڈاکٹرز کے مطابق جب کوئی مریض طبی طور پر مر بھی چکا ہوتا ہے لیکن اس کی سانس مشین کے ذریعے چل رہی ہوتی ہے تو اس وقت بھی اس کے اعضا ٹھیک رہتے ہیں کیونکہ سانس چلنے سے خون کی سپلائی جاری رہتی ہے۔
مزید پڑھیں: یتیموں کی کفالت کے لیے آبائی گھر بیچ دینے والا مردان کا گھرانا
انہوں نے بتایا کہ جواد کے عطیہ کردہ قرنیے 2 مریضوں کو دیے گئے جبکہ گردے بھی ضرورت مند مریضوں کو پیوندکاری کے ذریعے لگا دیے گئے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پیوندکاری کامیاب رہی اور مریض ٹھیک ہیں۔