تہران، نطنز، تبریز، فردو اور کرمانشاہ پر بھی اسرائیلی فضائی حملے، بیلسٹک میزائلوں کی ذخیرہ گاہ تباہ

جمعہ 13 جون 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ایرانی دارالحکومت تہران، تبریز کے بعد ایران کے مغربی صوبے کرمانشاہ میں بھی آج صبح اسرائیلی فضائیہ کے ایک بڑے حملے میں زیرِ زمین بیلسٹک میزائل ذخیرہ گاہ کو نشانہ بنایا گیا۔ عرب نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کی تصدیق شدہ ویڈیوز میں علاقے میں زبردست دھماکوں کے بعد آگ لگنے کے مناظر دیکھے گئے ہیں۔

دوسری طرف ایرانی نیوز ایجنسی فارس کا کہنا ہے کہ ’فردو‘ میں واقع جوہری تنصیبات کے قریب 2 دھماکوں کی آوازیں بھی سنائی دی ہیں۔ واضح رہے کہ فردو میں جوہری تنصیبات پہاڑوں کے اندر بنائی گئی ہیں تاکہ ان کی حفاظت کو یقینی بنایا جاسکے۔

اسرائیل کی جانب سے اس کارروائی کو ’آپریشن رائزنگ لائن‘ کا نام دیا گیا ہے، اس میں 200 سے زائد لڑاکا طیاروں نے ایران کے مختلف علاقوں میں تقریباً 100 حساس مقامات کو نشانہ بنایا، جن میں کرمانشاہ کی زیرِ زمین میزائل تنصیبات خاص طور پر شامل تھیں۔

کرمانشاہ، جو عراق کی سرحد کے قریب واقع ہے، ایران کے اسٹریٹیجک میزائل نظام کا ایک اہم مرکز سمجھا جاتا ہے۔ یہاں واقع خفیہ تنصیبات میں مختلف اقسام کے بیلسٹک میزائل، جن میں قیام-1 اور فجر سیریز شامل ہیں، ذخیرہ کیے جاتے تھے۔

اصفہان کے قریب واقع جوہری تنصیبات تباہ، اسرائیلی فوج کا دعویٰ

اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیلی فضائیہ نے ایران کے شہر اصفہان کے قریب واقع جوہری تنصیبات پر فضائی حملہ کیا ہے تاہم ایران نے اس خبر کی تصدیق نہیں کی۔

واضح رہے کہ جمعہ کی صبح اسرائیلی فضائیہ کے درجنوں طیاروں نے ایران کے ایٹمی اور فوجی انفراسٹرکچر کو نشانہ بنایا، جن میں نطنز کی ایٹمی تنصیبات اور بیلسٹک میزائلوں سے متعلق مراکز شامل ہیں۔

ایرانی سرکاری میڈیا کے مطابق ان حملوں کے نتیجے میں پاسداران انقلاب کے سپریم کمانڈر جنرل حسین سلامی اور میجر جنرل محمد باقری  سمیت کئی اعلیٰ فوجی اور ایٹمی سائنسدان شہید ہوچکے ہیں۔

ایرانی سرکاری نشریاتی ادارے  کے مطابق ایرانی مسلح افواج کے مرکزی کمان کے سربراہ میجر جنرل غلام علی رشید بھی ان حملوں میں شہید ہو گئے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ایران کے سینئر اور تجربہ کار ایٹمی سائنسدانوں محمد مهدی تہرانچی اور فریدون عباسی کے بھی مختلف حملوں میں شہید ہونے کی اطلاعات ہیں۔

اسرائیلی حملوں نے تہران سمیت ایران کے مختلف علاقوں میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے۔

اب بھی ایران بھر میں مختلف مقامات پر زوردار دھماکوں اور آگ لگنے کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔

وزیر اعظم شہباز شریف کی شدید مذمت

وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے ایران پر اسرائیل کے حملے کو بلا اشتعال اور انتہائی غیر ذمہ دارانہ اقدام قرار دیتے ہوئے اس کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ہے۔

اپنے سوشل میڈیا پیغام میں وزیراعظم نے کہا کہ آج ایران پر اسرائیل کا بلا جواز حملہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ اس حملے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر میں ایرانی عوام سے دلی ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں۔

شہباز شریف نے خبردار کیا کہ یہ سنگین اور غیر ذمہ دارانہ اقدام پہلے سے غیر مستحکم خطے کو مزید انتشار کی طرف دھکیل سکتا ہے۔

انہوں نے عالمی برادری اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری اور مؤثر اقدامات کریں تاکہ کشیدگی کو مزید بڑھنے سے روکا جا سکے، کیونکہ یہ علاقائی اور عالمی امن کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔

پاکستان کی ایران پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت، وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا دو ٹوک ردعمل

پاکستان نے ایران پر اسرائیل کے حالیہ بلاجواز فضا

ئی حملوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے ایران کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے ہفتے کے روز ایکس پر جاری بیان میں کہا کہ یہ حملہ نہ صرف بین الاقوامی قانون کی دھجیاں اڑاتا ہے بلکہ انسانیت کے ضمیر کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔

وزیر خارجہ نے ایران پر اسرائیل کے بلاجواز حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ایران کی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔

’اس گھناؤنے اقدام نے بین الاقوامی قانون کی بنیادوں کے ساتھ ساتھ انسانیت کے ضمیر کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے، اور علاقائی استحکام و عالمی امن کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ پاکستان ایران کی حکومت اور عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی میں کھڑا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی حملے غیر ذمہ دارانہ اور خطرناک ہیں، جوہری مذاکرات کے ثالث عمان کا ردعمل

دوسری جانب، دفتر خارجہ کی جانب سے جاری باضابطہ بیان میں بھی اسرائیلی جارحیت پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایران کی خودمختاری پر حملہ کیا ہے، جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔

ترجمان دفترِ خارجہ کے مطابق ایران کو اقوام متحدہ چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، پاکستان نہ صرف اس حق کو تسلیم کرتا ہے بلکہ ایرانی عوام کے ساتھ پوری قوت سے یکجہتی کا اظہار کرتا ہے۔

مزید پڑھیں:ایران پر اسرائیلی حملے کے بعد عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں 9 فیصد سے زائد اضافہ

’اسرائیل کی یہ اشتعال انگیزی پورے خطے کے امن، سلامتی اور استحکام کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے، جس کے اثرات علاقائی حدود سے باہر بھی محسوس کیے جائیں گے۔‘

پاکستان نے عالمی برادری، خصوصاً اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بین الاقوامی قوانین کی بالادستی یقینی بنائے، اسرائیلی جارحیت کو فی الفور روکے اور حملہ آور ریاست کو احتساب کے کٹہرے میں لایا جائے۔

یہ مؤقف ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ایران نے اسرائیلی حملوں کے جواب میں شدید انتقامی کارروائی کا عندیہ دیا ہے، اور خطے میں تناؤ انتہائی خطرناک سطح پر پہنچ چکا ہے۔

ایران نے اسرائیل کیخلاف جوابی اقدام کرتے ہوئے پہلے مرحلے میں اسرائیل پر 100 بیلسٹک ڈرونز اور ممکنہ طور پر بیلسٹک میزائل بھی داغے ہیں۔

دی گارجین کی رپورٹ کے مطابق ایران کی جانب سے اسرائیل کیخلاف 100 بیلسٹک ڈرونز اور ممکنہ طور پر بیلسٹک میزائل سے حملہ کیا گیا ہے۔ اسرائیلی میڈیا ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق ایران نے 13 جون 2025 کو اسرائیل پر بیلسٹک میزائلوں اور100 سے زائد  ڈرونز کے ذریعے جوابی حملہ کیا۔ یہ کارروائی اسرائیلی فضائی حملوں کے ردعمل میں کی گئی، جن میں تہران اور دیگر ایرانی شہروں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

اسرائیلی فوج نے ڈرونز کو فضا میں روکنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ اسرائیل بھر میں ہنگامی صورتحال نافذ کر دی گئی ہے۔ ایران کی جانب سے مزید جوابی کارروائیوں کا عندیہ دیا گیا ہے۔

انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق اسرائیل نے اپنے شہری دفاعی نظام کو متحرک کرکے ہنگامی الرٹ جاری کیا، تمام غیر ضروری اسکولوں، تقریبات اور غیرملکیوں کا انخلا شروع کر دیا ہے۔

قومی اسمبلی میں ایران پر اسرائیلی حملے کی مذمت، مذمتی قرارداد منظور

اسلام آباد: پاکستان کی قومی اسمبلی نے ایران پر اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے ایک مذمتی قرارداد منظور کر لی ہے۔ قرارداد میں اسرائیلی جارحیت کو بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔

senate-pakistan-peca-act

قرارداد کے متن میں کہا گیا کہ ایران پر کیا گیا حملہ نہ صرف علاقائی امن کے لیے خطرہ ہے بلکہ یہ عالمی سطح پر کشیدگی میں اضافے کا باعث بنے گا۔ پاکستان کی پارلیمنٹ نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیلی جارحیت کا فوری نوٹس لے اور مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے کردار ادا کرے۔

اراکینِ اسمبلی نے ایران کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کسی بھی جارحیت کے خلاف ہمیشہ مظلوموں کے ساتھ کھڑا رہا ہے اور مستقبل میں بھی اپنی اصولی پوزیشن پر قائم رہے گا۔


اسرائیل کے ایران پر بڑے پیمانے پر فضائی حملے، ایرانی ملٹری چیف اور پاسداران انقلاب کے سربراہ سمیت کئی اہم شخصیات شہید


جمعہ کی صبح اسرائیل نے ایران پر ایک بڑے اور غیر معمولی فضائی حملے کا آغاز کیا، جسے اسرائیلی حکام نے ’آپریشن رائزنگ لائن‘ کا نام دیا ہے۔ اس کارروائی میں اسرائیلی فضائیہ کے درجنوں طیاروں نے ایران کے ایٹمی اور فوجی انفراسٹرکچر کو نشانہ بنایا، جن میں نطنز کی ایٹمی تنصیبات اور بیلسٹک میزائلوں سے متعلق مراکز شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں:جوہری عدم پھیلاؤ کی خلاف ورزی پر ایران کیخلاف انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی قرارداد منظور

ایرانی سرکاری میڈیا کے مطابق حملے کے نتیجے میں پاسداران انقلاب کے سپریم کمانڈر جنرل حسین سلامی اور میجر جنرل محمد باقری  سمیت کئی اعلیٰ فوجی اور ایٹمی سائنسدان شہید ہوچکے ہیں۔ ایران بھر میں مختلف مقامات پر زوردار دھماکوں اور آگ لگنے کی اطلاعات موصول ہوئیں، جبکہ متعدد شہروں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو نے اس کارروائی کو “اسرائیل کے وجود کی بقا کے لیے ایک تاریخی اور فیصلہ کن اقدام” قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ آپریشن اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک ایران کی جانب سے لاحق خطرہ مکمل طور پر ختم نہیں ہو جاتا۔

دوسری جانب، ایران نے اسرائیلی حملے کے ردعمل میں “فیصلہ کن جوابی کارروائی” کی دھمکی دی ہے۔ ایرانی حکومت کا کہنا ہے کہ ان کے پاس بیلسٹک میزائل اور ڈرون حملوں کی مکمل صلاحیت موجود ہے، اور اس حملے کا بھرپور بدلہ لیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں:ایران کے جوہری طاقت بننے کا خواب پورا نہیں ہونے دیں گے، صدر ٹرمپ

عالمی سطح پر اس حملے کے اثرات فوری طور پر محسوس کیے گئے۔ خام تیل کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا، جبکہ امریکہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ سمیت کئی ممالک نے خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اگرچہ امریکہ نے اس حملے میں براہِ راست کسی مداخلت سے انکار کیا ہے، تاہم صورتحال پر قریبی نظر رکھی جا رہی ہے۔

ایران کے اہم ہوائی اڈوں پر تمام پروازیں معطل کر دی گئی ہیں اور ریاستی نشریاتی ادارے نے اپنے لوگو پر سیاہ پٹی لگا دی ہے، جو ہنگامی حالات کی نشاندہی کرتا ہے۔ اسرائیل نے بھی اپنی فضائی حدود بند کر دی ہیں اور شہریوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ قریبی شیلٹرز کے قریب رہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی مشرق وسطیٰ میں ایک نئے اور خطرناک مرحلے کا آغاز ہو سکتی ہے، جس میں بڑے پیمانے پر فوجی تصادم کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے۔


اسرائیلی حملے میں کون کون سی اہم ایرانی شخصیات شہید ہوئیں


جمعہ کی علی الصبح ایران کے دارالحکومت تہران اور دیگر صوبوں پر اسرائیل کی جانب سے کیے گئے وسیع پیمانے پر فضائی حملوں میں اسلامی انقلابی گارڈ کور (IRGC) کے چیف کمانڈر میجر جنرل حسین سلامی شہید ہو گئے ہیں۔اس کے علاوہ ایرانی نلٹری چیف میجر جنرل محمد باقر بھی اس حملے میں کام آئے ہیں۔

اسرائیلی حملے میں پاسداران انقلاب کے کئی دیگر سینئر کمانڈرز اور ایٹمی سائنسدان بھی شہید ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:جوہری عدم پھیلاؤ کی خلاف ورزی پر ایران کیخلاف انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی قرارداد منظوران حملوں نے تہران سمیت ایران کے مختلف علاقوں میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی۔

ایرانی سرکاری نشریاتی ادارے IRIB نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایرانی مسلح افواج کے مرکزی کمان کے سربراہ میجر جنرل غلام علی رشید بھی ان حملوں میں شہید ہو گئے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ایران کے سینئر اور تجربہ کار ایٹمی سائنسدانوں محمد مهدی تہرانچی اور فریدون عباسی کے بھی مختلف حملوں میں شہید ہونے کی اطلاعات ہیں۔


جنرل سلامی کون تھے؟


اسرائیلی حملے میں شہید ہونے والے میجر جنرل حسین سلامی، ایران کی اسلامی انقلابی گارڈ کور (IRGC) کے چیف کمانڈرتھے۔ وہ ایران کے طاقتور ترین فوجی اور سیاسی شخصیات میں شمار ہوتے تھے اور انہیں ایران کے دفاع، خارجہ پالیسی، اور خطے میں عسکری حکمت عملی کی تشکیل میں مرکزی حیثیت حاصل تھی۔

پیدائش و ابتدائی تعلیم

جنرل حسین سلامی 1960ء میں ایران کے صوبہ ہمدان میں پیدا ہوئے۔ ایران-عراق جنگ (1980–1988) کے دوران انہوں نے ایرانی افواج میں شمولیت اختیار کی اور میدانِ جنگ میں نمایاں کارکردگی دکھائی۔

تعلیم

انہوں نے ایران کی ایرو اسپیس یونیورسٹی سے انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کی اور بعد ازاں IRGC کی ایرو اسپیس فورس کے کمانڈر بنے۔ ان کے پاس فوجی اسٹریٹیجی، ایوی ایشن، اور میزائل ٹیکنالوجی میں خاص تجربہ تھا۔

عسکری ترقی اور عہدے

حسین سلامی 1990 کی دہائی میں IRGC کے اعلیٰ کمانڈ میں شامل ہوئے۔ انہوں نے IRGC کی ایرو اسپیس فورس کی کمان سنبھالی، جو ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام کی نگرانی کرتی ہے۔

2009 میں انہیں پاسداران انقلاب کا نائب سربراہ مقرر کیا گیا، اور اپریل 2019 میں انہیں سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے پاسداران انقلاب کا سربراہ مقرر کیا۔

نظریاتی وابستگی

سلامی ایک سخت گیر نظریاتی شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔ وہ امریکا، اسرائیل اور مغربی طاقتوں کے خلاف ایران کی مزاحمتی حکمت عملی کے حامی تھے۔

ان کا ماننا تھا کہ ایران کو ایک ’خود کفیل مزاحمتی طاقت‘ کے طور پر ابھرنا چاہیے، جس کے لیے انہوں نے عسکری طاقت کو مرکزیت دی۔

بین الاقوامی کردار

جنرل سلامی نے شام، لبنان، عراق اور یمن میں ایران کے عسکری اثر و رسوخ کو بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کا شمار ان رہنماؤں میں ہوتا تھا جو ’محورِ مزاحمت‘ (Axis of Resistance) کو ایک عملی حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے سرگرم تھے۔

امریکی پابندیاں

2020 میں امریکہ نے انہیں باقاعدہ طور پر سینکشنز (پابندیوں) کی فہرست میں شامل کیا، جس کی وجہ خطے میں ایران کی بڑھتی عسکری سرگرمیاں اور داخلی مظاہروں کے خلاف سخت اقدامات تھے۔

شہادت کا پس منظر

جنرل حسین سلامی جمعہ، 13 جون 2025 کو اسرائیل کے تہران پر کیے گئے ایک بڑے فضائی حملے میں شہید ہو گئے۔ ان کی شہادت کو ایران میں نہ صرف عسکری نقصان بلکہ ایک ’علامتی قومی سانحہ‘ قرار دیا جا رہا ہے۔

ان کی جگہ ممکنہ طور پر ایک نئی عسکری قیادت ابھرے گی، مگر ان کا خلا پُر کرنا بلاشبہ ایران کے لیے ایک چیلنج ہوگا۔

ان کی جگہ ممکنہ طور پر ایک نئی عسکری قیادت ابھرے گی، مگر ان کا خلا پُر کرنا بلاشبہ ایران کے لیے ایک چیلنج ہوگا۔


عراق نے جمعہ کے روز اپنی فضائی حدود بند کرتے ہوئے ملک بھر میں فضائی آمدورفت معطل کر دی ہے، یہ اقدام اسرائیل کی جانب سے ایران کے جوہری اور عسکری مقامات پر حملوں کے بعد کیا گیا۔

سرکاری خبر رساں ادارے عراقی نیوز ایجنسی کے مطابق وزارتِ ٹرانسپورٹ نے عراقی فضائی حدود بند کر دی ہیں اور ملک کے تمام ہوائی اڈوں پر فضائی آپریشن معطل کر دیا گیا ہے۔

عراقی حکومت کی جانب سے یہ فیصلہ خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور ممکنہ خطرات کے پیش نظر کیا گیا ہے تاکہ عوامی سلامتی کو یقینی بنایا جا سکے۔

عراق کی فضائی حدود خطے میں اہم فضائی گزرگاہ سمجھی جاتی ہے اور اس کی بندش کے اثرات بین الاقوامی پروازوں پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔

مقامات سے دھویں کے بادل بھی اٹھتے دیکھے گئے۔


تہران پر حملے کے بعد ایران کا سخت ردعمل: ’قیمت چکانا پڑے گی’


ایران نے آج علی الصبح اسرائیلی فضائی حملوں کے بعد شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیل کو سخت جوابی کارروائی کی وارننگ دی ہے۔ ایرانی پارلیمنٹ کی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیٹی کے رکن ابراہیم رضائی نے کہا ہے کہ تل ابیب کی حالیہ کارروائیوں کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔

رضائی نے مزید کہا کہ ایران اپنی قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا، اور صہیونی حکومت کو اپنے اقدام کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔

یاد رہے کہ آج صبح اسرائیل نے تہران سمیت ایران کے مختلف شہروں پر اچانک فضائی حملے کیے، جن میں رہائشی علاقوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ ایرانی سرکاری ذرائع کے مطابق ان حملوں میں کئی اعلیٰ فوجی افسران اور ایٹمی سائنسدان شہید ہوئے ہیں۔

ایران کی جانب سے ممکنہ بیلسٹک میزائل حملوں کے خدشے کے باعث اسرائیل میں ہائی الرٹ نافذ کر دیا گیا ہے۔

اسرائیلی حکومت نے شہریوں کو بم شیلٹرز کے قریب رہنے کی ہدایت جاری کی ہے، جبکہ ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے اسکولز، تقریبات اور عوامی اجتماعات معطل کر دیے گئے ہیں۔

ایرانی قیادت نے واضح کیا ہے کہ یہ حملے ایران کی خودمختاری کے خلاف کھلی جارحیت ہیں، اور ان کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق خطے میں کشیدگی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے، اور آنے والے دنوں میں صورتحال مزید سنگین ہو سکتی ہے۔


ایران پر حملے سے چند گھنٹے قبل امریکی صدر ٹرمپ نے اسرائیل کو کیا پیغام دیا تھا؟


امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کے روز اپنے اتحادی اسرائیل پر زور دیا تھا کہ وہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ نہ کرے، کیونکہ تہران کے ساتھ معاہدہ قریب ہے بشرطیکہ ایران کچھ لچک دکھائے۔

ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک مناسب معاہدے کے کافی قریب ہیں۔ صدر ٹرمپ نے تسلیم کیا کہ اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو ایران پر حملے پر غور کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تصادم کا خدشہ ہے۔ یہی خدشات امریکی سفارتی عملے کی مشرق وسطیٰ سے واپسی کے فیصلے کا باعث بنے ہیں۔

جب اُن سے نیتن یاہو کے ساتھ بات چیت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ میں نہیں چاہتا کہ وہ (اسرائیل) حملہ کرے، کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ اس سے معاہدہ سبوتاژ ہو سکتا ہے۔ ٹرمپ نے فوری طور پر یہ بھی کہا کہ ممکن ہے اس سے معاہدے کو فائدہ بھی ہو، لیکن نقصان بھی ہو سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: اسرائیل کے ایران پر بڑے پیمانے پر فضائی حملے، پاسداران انقلاب کے سربراہ سمیت کئی اہم شخصیات ہلاک

صدر ٹرمپ کے مشرقِ وسطیٰ کے لیے خصوصی نمائندے اسٹیو وٹکوف اتوار کو عمان میں ایران کے ساتھ چھٹے دور کی بات چیت کرنے والے ہیں۔ ایران نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ یورینیم کی افزودگی کی سطح میں اضافہ کرے گا، جو مذاکرات میں سب سے بڑا تنازع ہے۔

صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر خود کو امن پسند قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ ایران کے ساتھ تنازع سے بچنا چاہتے ہیں، اور ترجیح ایک باوقار سفارتی معاہدے کو دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں اس تنازع سے بچنا پسند کروں گا۔ ایران کو تھوڑا سخت رویہ اپنانا ہوگا یعنی ہمیں کچھ ایسی چیزیں دینا ہوں گی جو وہ اس وقت دینے کو تیار نہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اسرائیل ایران پر حملہ کر سکتا ہے تو صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ میں یہ نہیں کہوں گا کہ حملہ فوری ہے، لیکن یہ کچھ ایسا ہے جو ممکنہ طور پر ہو سکتا ہے۔


 میجر جنرل محمد باقری کون تھے؟


پیدائش اور ابتدائی زندگی

محمد حسین باقری 1960ء کے قریب ایران کے شہر تبریز میں پیدا ہوئے۔ وہ ایرانی انقلاب (1979) کے بعد نوجوانی میں ہی پاسداران انقلاب میں شامل ہو گئے اور ایران-عراق جنگ (1980-1988) کے دوران کئی اہم محاذوں پر سرگرم رہے۔

تعلیم اور پیشہ ورانہ پس منظر

باقری نے ملٹری اسٹریٹیجک اسٹڈیز اور سائنس اینڈ سیکیورٹی کے شعبوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔

وہ ایران کی اعلیٰ عسکری درسگاہوں سے وابستہ بھی رہے اور نئی فوجی قیادت کی تربیت میں سرگرم کردار ادا کیا۔

عہدہ اور ذمہ داریاں

2016 میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے انہیں آرمی چیف آف اسٹاف مقرر کیا۔

یہ بھی پڑھیں:ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اسرائیل کو خبردار کردیا، حملے کے بعد پہلے بیان میں کیا کہا؟

اس عہدے پر وہ ایرانی فوج (ارتش)، پاسداران انقلاب (IRGC)، اور بسیج فورسز کے مابین ہم آہنگی، دفاعی پالیسی، اور جنگی منصوبہ بندی کے نگران بنے۔

انہوں نے ایران کی دفاعی خودکفالت کی پالیسی کو وسعت دی اور علاقائی دفاعی اتحادوں میں کردار بڑھایا۔

نظریاتی اور اسٹریٹیجک مؤقف

جنرل باقری ایران کے سخت گیر عسکری حلقے سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ امریکا، اسرائیل اور خلیجی ممالک کے خلاف مزاحمتی نظریہ کے کھلے حامی تھے۔

انہوں نے ایرانی دفاع کو ایسی حالت میں رکھا کہ دشمن کسی بھی حملے کی صورت میں سخت ترین جواب سے دوچار ہو۔

علاقائی کردار

جنرل باقری نے شام، عراق، لبنان میں ایرانی اثر و رسوخ کو مستحکم کرنے کے لیے مختلف فوجی اور سفارتی منصوبوں کی نگرانی کی۔

وہ خطے میں ایران کے اسٹریٹیجک اتحادیوں جیسے حزب اللہ اور الحشد الشعبی سے بھی براہِ راست رابطے رکھتے تھے۔

13 جون 2025 کو اسرائیل کے ایران پر بڑے حملے کے بعد افواہیں پھیلیں کہ جنرل باقری مارے گئے ہیں۔ تاہم پہلے ایرانی سرکاری میڈیا نے اس کی تردید کی، مگر بعد میں ان کی شہادت کی تصدیق کر دی ہے۔


’ایران کا جوابی حملہ انتہائی منظم اور فیصلہ کن ہوگا‘


ایرانی فوج کے ترجمان نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کو اس کے حالیہ حملوں کے نتائج بھگتنا پڑیں گے اور اسے ’بھاری قیمت‘ ادا کرنی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ یہ جواب صرف اسرائیل ہی نہیں، بلکہ اس کا بنیادی حلیف امریکا بھی دے گا۔

انہوں نے مزید بیان کیا کہ آج صبح اسرائیل نے ایران کے خلاف اپنی جارحانہ کارروائیاں تیز کر دی ہیں، جن میں مذہبی اور سکیورٹی مراکز کو نشانہ بنایا گیا۔

یہ حملے تہران کے رہائشی علاقوں میں دھماکوں کے ساتھ جاری رہے، لیکن ان کے مطابق ان کا جوابی حملہ انتہائی منظم اور فیصلہ کن ہوگا۔

خطے میں اس تازہ کشیدگی نے عالمی امن کو درپیش خطرات کو بڑھا دیا ہے، خاص طور پر خلیجی ممالک اور یورپی طاقتوں نے اس صورتحال پر سنجیدہ تشویش کا اظہار کیا ہے۔ آئی اے ای اے اور اقوامِ متحدہ کے حکام نے فریقین سے تحمل اور تبادلۂ خیال سے تنازعے کو حل کرنے کی اپیل کی ہے۔

یاد رہے کہ آج13 جون 2025 کی صبح اسرائیل نے ایران میں ’آپریشن رائزنگ لائن‘ کے تحت بڑے فضائی حملوں کا آغاز کیا، جس میں ایران کے ایٹمی تنصیبات (جیسے نطنز)، بیلسٹک میزائل فیکٹریاں، اور اعلیٰ کمانڈرز کو نشانہ بنایا گیا ۔

حملے کے دوران سینئر فوجی اور ایٹمی سائنسدان شہید ہوئے، جبکہ تہران اور دیگر شہروں میں رہائشی عمارتیں بھی تباہ ہوئیں ۔ ایران نے انہیں خودکش حملوں کے طور پر قرار دے کر اعلان کیا کہ تل ابیب اور اس کے حلیفوں کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔


اسرائیلی حملوں میں شہید ہونیوالے ایٹمی سائنسدان فریدون عباسی کون تھے؟


حالیہ اسرائیلی حملوں میں شہید ہونیوالے ڈاکٹر فریدون عباسی دوانی ایران کے اُن ممتاز ایٹمی سائنسدانوں میں سے تھے جنہوں نے نہ صرف سائنسی میدان میں اہم خدمات انجام دیں بلکہ ملکی دفاعی ڈھانچے میں بھی نمایاں کردار ادا کیا تھا۔

11 جولائی 1958 کو ایران کے شہر آبادان میں پیدا ہونے والے فریدون عباسی نے شہید بہشتی یونیورسٹی سے نیوکلیئر فزکس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ وہ نہ صرف ایک ماہرِ طبیعات تھے بلکہ پاسدارانِ انقلاب سے وابستہ برگیڈیئر جنرل کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اسرائیل کو خبردار کردیا، حملے کے بعد پہلے بیان میں کیا کہا؟

ڈاکٹر فریدون عباسی کی علمی زندگی تدریس و تحقیق سے عبارت تھی، اور وہ امام حسین یونیورسٹی اور ایک عرصے تک شہید بہشتی یونیورسٹی میں فزکس کے پروفیسر کے طور پر تدریسی فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔

ڈاکٹر فریدون عباسی دوانی کا سب سے نمایاں دور وہ تھا جب وہ ایران کی ایٹمی توانائی کی تنظیم  کے سربراہ مقرر ہوئے، 2011 سے 2013 تک اس ادارے کی قیادت کرتے ہوئے انہوں نے ایران کے ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔

ان پر اقوام متحدہ اور مغربی انٹیلیجنس اداروں کی جانب سے الزام عائد کیا جاتا رہا کہ وہ ایران کے ایٹمی پروگرام میں اُس پہلو سے وابستہ تھے جسے ’ملٹری ڈائمینشن‘ کہا جاتا ہے، یعنی وہ ایٹمی ٹیکنالوجی کے ممکنہ فوجی استعمال میں شامل سمجھے جاتے تھے، اسی تناظر میں ان کیخلاف 2007 میں اقوام متحدہ کی جانب سے پابندیاں بھی عائد کی گئیں۔

مزید پڑھیں:اسرائیلی حملے میں کون کون سی اہم ایرانی شخصیات شہید ہوئیں؟

ڈاکٹر فریدون عباسی دوانی کی زندگی خطرات سے عبارت رہی، نومبر 2010 میں اُن پر ایک قاتلانہ حملہ کیا گیا، جب تہران میں ان کی گاڑی کے نیچے مقناطیسی بم نصب کیا گیا، تاہم وہ اس حملے میں زخمی ہونے کے باوجود بچ گئے۔

مذکورہ قاتلانہ حملے کی ناکام کوشش کا الزام اسرائیلی خفیہ ادارے موساد پر لگایا گیا، جو اس وقت ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کی کوششوں میں سرگرم تھا۔

تحقیق و تدریس کے شعبے میں بھی ان کا اثرورسوخ غیرمعمولی تھا۔ انہوں نے نیوکلیئر فزکس، پلازما ٹیکنالوجی اور ریڈی ایشن ایپلی کیشنز جیسے اہم موضوعات پر 100 سے زائد تحقیقی مقالے شائع کیے، جنہیں بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا۔ وہ شہید بہشتی یونیورسٹی کے اپلائیڈ ریڈی ایشن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سے بھی وابستہ رہے۔

ایرانی قوم کے لیے ڈاکٹر فریدون عباسی دوانی کی زندگی علم، خدمت اور قومی خودمختاری کے تصور سے جڑی ہوئی تھی، جمعے کو  اسرائیلی فضائی حملوں میں ان کی شہادت ایران کے جوہری پروگرام کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوگی۔


فریقین تحمل کا مظاہرہ کریں، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیریس


اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیریس نے مشرق وسطیٰ میں کسی بھی قسم کی فوجی کشیدگی کی مذمت کرتے ہوئے تمام فریقین سے تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے تاکہ خطہ کسی بڑے تصادم کا شکار نہ ہو۔

ترجمان اقوام متحدہ فرحان حق کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ سیکریٹری جنرل مشرق وسطیٰ میں کسی بھی قسم کی فوجی کارروائی کی شدید مذمت کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: اسرائیل کے ایران پر بڑے پیمانے پر فضائی حملے، ایرانی ملٹری چیف اور پاسداران انقلاب کے سربراہ سمیت کئی اہم شخصیات شہید

بیان میں خاص طور پر اسرائیل کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا، ایسے وقت میں جب ایران اور امریکا کے درمیان ایران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات جاری ہیں۔

فرحان حق نے کہا کہ سیکریٹری جنرل کو ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملوں پر خاص طور پر تشویش ہے، جبکہ امریکا اور ایران کے درمیان حساس نوعیت کے مذاکرات ہو رہے ہیں۔

اقوام متحدہ نے زور دیا ہے کہ تمام فریقین زیادہ سے زیادہ ضبط و تحمل کا مظاہرہ کریں تاکہ خطے کو مزید گہرے تصادم سے بچایا جا سکے۔


اسرائیل میں مقیم چینی شہری ممکنہ میزائل اور ڈرون حملوں کے لیے تیار رہیں


چین نے اسرائیل اور ایران میں موجود اپنے شہریوں کے لیے سیکیورٹی ہدایات جاری کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل میں مقیم چینی شہری ممکنہ میزائل اور ڈرون حملوں کے لیے تیار رہیں۔

چینی سفارتخانے نے جمعہ کو اسرائیل میں مقیم اپنے شہریوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنی سیکیورٹی تدابیر کو مضبوط کریں، غیر ضروری باہر جانے سے گریز کریں اور خاص طور پر فوجی تنصیبات اور حساس اداروں کے قریب جانے سے احتراز کریں، کیونکہ زمینی صورتحال پیچیدہ اور سنگین ہے۔

ایران میں موجود چینی سفارتخانے نے بھی ایک علیحدہ اعلامیے میں ایران میں مقیم شہریوں اور چینی کمپنیوں کو تازہ ترین حالات پر قریبی نظر رکھنے اور سیکیورٹی اقدامات میں بہتری لانے کی ہدایت کی ہے۔

مزید پڑھیں: ایران کا جوابی حملہ انتہائی منظم اور فیصلہ کن ہو گا‘

اسرائیلی فوج نے اس سے قبل اعلان کیا تھا کہ ملک میں سویلین اور عوامی تحفظ کی سطح کو ضروری سرگرمیوں تک محدود کر دیا گیا ہے۔


اسرائیل کی فضائی حدود ہر قسم کی آمد و رفت کے لیے بند 


فوج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ہدایات کے مطابق تعلیمی سرگرمیوں، اجتماعات اور دفاتر پر پابندی عائد کردی گئی ہے، صرف بنیادی اور ضروری خدمات کو اجازت دی گئی ہے۔

اسرائیل کی وزارتِ ٹرانسپورٹ نے تصدیق کی ہے کہ ملک کا فضائی حدود ہر قسم کی آمد و رفت کے لیے بند کر دی گئی ہے، اور یہ پابندی تاحکم ثانی جاری رہے گی۔


اسرائیل نے ایران کے کن مقامات پر حملہ کیا؟


اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ اُس نے ایران کی جوہری تنصیبات اور عسکری مراکز پر فضائی حملے کیے ہیں تاکہ تہران کو مبینہ جوہری ہتھیار بنانے سے روکا جا سکے۔ حملوں میں ایرانی کمانڈروں اور میزائل فیکٹریوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے ایک ریکارڈ شدہ پیغام میں اس کارروائی کو ملکی تاریخ کا فیصلہ کن لمحہ قرار دیا ہے۔ اسرائیلی فوج نے اس آپریشن کو ’رائزنگ لائن‘ (اُبھرتا ہوا شیر) کا نام دیا ہے۔

ایرانی سرکاری میڈیا اور عینی شاہدین کے مطابق دارالحکومت تہران سمیت مختلف شہروں میں زوردار دھماکے سنے گئے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق متعدد شہادتیں ہوئی ہیں جن میں بچے بھی شامل ہیں۔ ایران کی پریس ٹی وی نے تصدیق کی ہے کہ نطنز (Natanz) میں واقع مرکزی جوہری افزودگی کا مرکز اسرائیلی حملے کا ہدف بنا ہے۔

مزید پڑھیں: تہران پر حملے کے بعد ایران کا سخت ردعمل: ’قیمت چکانا پڑے گی’

ایرانی خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق امام خمینی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر پروازیں معطل کر دی گئی ہیں، تاہم تاحال ائیرپورٹ کو براہ راست کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

ایرانی سرکاری میڈیا کے مطابق گزشتہ چند گھنٹوں کے دوران کم از کم 2 مرتبہ فضائی حملوں کی لہریں دیکھی گئی ہیں، جبکہ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق تیسری لہر بھی جاری ہے۔


حملوں کے مقامات


ابتدائی اطلاعات کے مطابق اسرائیلی فضائیہ نے ایران کے 6 مختلف علاقوں میں حملے کیے ہیں:

تہران اور مضافات – جہاں عسکری مراکز کو نشانہ بنایا گیا۔

نطنز – ایران کا مرکزی یورینیم افزودگی پلانٹ۔

تبریز – جوہری تحقیقاتی مرکز اور 2 فوجی اڈے نشانے پر۔

مزید پڑھیں: اسرائیلی میں شہید ہونے والے ایرانی ملٹری چیف جنرل باقری کون تھے؟

اصفہان – تہران کے جنوب میں واقع اہم صنعتی و دفاعی شہر۔

اراک – جوہری سرگرمیوں کے لیے معروف شہر، جو تہران کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔

کرمانشاہ – مغربی ایران کا اہم فوجی مرکز۔


سعودی عرب کی ایران پر اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت


سعودی عرب نے ایران پر اسرائیل کے فضائی حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے انہیں برادر اسلامی ملک ایران کی خودمختاری اور سلامتی پر کھلی جارحیت اور بین الاقوامی قوانین و اصولوں کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

سعودی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ مملکت سعودی عرب، برادر اسلامی جمہوریہ ایران پر اسرائیلی جارحیت کی سخت الفاظ میں مذمت کرتی ہے، جو ایک آزاد ریاست کی خودمختاری کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔

مزید پڑھیں: اسرائیلی حملے غیر ذمہ دارانہ اور خطرناک ہیں، جوہری مذاکرات کے ثالث عمان کا ردعمل

سعودی وزارت خارجہ نے اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ وہ اس جارحیت کو فوری طور پر روکنے کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔

سعودی عرب کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب خطے میں اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی انتہا کو پہنچ چکی ہے اور کئی ممالک فضائی حدود بند کر چکے ہیں۔


اسرائیل کے ہنگامی اقدامات: فضائی حدود بند


اسرائیل نے اپنی فضائی حدود مکمل طور پر بند کر دی ہے اور متعدد پروازیں مختلف مقامات پر موڑ دی گئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:100 بیلسٹک ڈرونز اور بیلسٹک میزائل کیساتھ ایران کا اسرائیل پر جوابی حملہ

اس اقدام کا تعلق اسرائیلی فضائیہ کے ایران پر کیے گئے حالیہ حملوں سے ہے۔ ذرائع کے مطابق، اسرائیلی فضائیہ نے ایران کے کچھ اہم مقامات کو نشانہ بنایا ہے، جس کے جواب میں اسرائیل نے اپنے ہوائی حدود کو عارضی طور پر بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق ہوائی اڈوں کے حکام نے تصدیق کی ہے کہ بین الاقوامی پروازیں اسرائیل سے ہٹ کر قبرص، اردن اور دیگر قریبی ممالک کی طرف موڑ دی گئی ہیں۔ اسرائیلی فضائی حدود میں داخل ہونے والی تمام پروازوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:اسرائیلی حملے غیر ذمہ دارانہ اور خطرناک ہیں، جوہری مذاکرات کے ثالث عمان کا ردعمل

اس سے قبل ایران نے بھی اپنی فضائی حدود بند کر دی تھی اور کئی شہروں میں میزائل حملوں کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں۔ علاقائی تناؤ میں اضافے کے پیش نظر دونوں ممالک نے اپنی فضائی حدود بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔


اسرائیلی حملے میں کون کون سے ایرانی سائنسدان شہید ہوئے؟


تہران پر اسرائیلی حملے میں ایران کے چھ اہم سائنسدان مارے گئے، جن کا تعلق جوہری اور دفاعی پروگرامز سے تھا۔ ان کی موت کو ایران کے سائنسی اور عسکری ڈھانچے پر بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ایران پر اسرائیلی حملے 2024 کے مقابلے میں کہیں زیادہ شدید اور غیر متوقع کیوں؟

ڈاکٹر فریدون عباسی دوانی

شہید سائنسدانوں میں سب سے نمایاں نام ڈاکٹر فریدون عباسی دوانی کا ہے، جو ایران کے ایٹمی توانائی ادارے کے سابق سربراہ رہ چکے تھے۔ وہ نیوکلیئر فزکس کے ماہر تھے اور یورینیم افزودگی جیسے حساس شعبے میں کام کرتے تھے۔ اُن پر پہلے بھی قاتلانہ حملہ ہو چکا تھا، مگر وہ بچ گئے تھے۔

ڈاکٹر محمد مہدی تہرانچی

دوسرے سائنسدان ڈاکٹر محمد مہدی تہرانچی تھے، جو تہران کی مشہور اسلامی آزاد یونیورسٹی کے سربراہ اور لیزر فزکس کے ماہر تھے۔ ان کا شمار ایران کے جوہری سائنسدانوں میں ہوتا تھا، اور انہوں نے مختلف ریسرچ پروجیکٹس کی قیادت کی تھی۔

ڈاکٹر مجید کاویانی

ڈاکٹر مجید کاویانی کا تعلق خلائی ٹیکنالوجی سے تھا۔ وہ ایران کے عسکری سیٹلائٹ پروگرامز میں سرگرم رہے اور ملکی دفاعی سیٹلائٹ سسٹم کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا۔

ڈاکٹر سجاد قریشی

ڈاکٹر سجاد قریشی دفاعی ٹیکنالوجی کے ماہر تھے۔ وہ راڈار اور میزائل ٹیکنالوجی میں کام کر رہے تھے اور ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرامز سے منسلک تھے۔

ڈاکٹر علی خرم دہقان

ڈاکٹر علی خرم دہقان نطنز اور فردو کے ایٹمی پلانٹس میں بطور مشیر خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ وہ نیوکلیئر مواد کو محفوظ طریقے سے استعمال کرنے پر تحقیق کر رہے تھے۔

ڈاکٹر رضا موسوی نژاد

ڈاکٹر رضا موسوی نژاد کا تعلق کیمیکل انجینئرنگ سے تھا۔ وہ دفاعی اداروں میں کام کرتے تھے اور کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کے منصوبوں میں شامل تھے۔

ان سائنسدانوں کی شہادت سے نہ صرف ایران کی دفاعی تحقیق کو نقصان پہنچا ہے بلکہ خطے میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ ایرانی حکام نے ان کی قربانی کو “ناقابلِ فراموش قومی

سرمایہ” قرار دیا ہے اور اسرائیل کو سنگین نتائج کی وارننگ دی ہے۔


حماس کی جانب سے مذمت


فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے ایران پر اسرائیلی حملوں کو وحشیانہ جارحیت قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل کو روکنے کے لیے متحدہ مؤقف اختیار کرے اور اس کے جرائم کا خاتمہ یقینی بنائے۔

حماس نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ جارحیت ایک خطرناک اشتعال انگیزی ہے جو خطے کو عدم استحکام کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہے۔ یہ انتہا پسند نیتن یاہو حکومت کی جانب سے خطے کو کھلی جنگ کی طرف گھسیٹنے کی سازش کی عکاسی کرتی ہے۔

مزید پڑھیں :ایران پر اسرائیلی حملے 2024 کے مقابلے میں کہیں زیادہ شدید اور غیر متوقع کیوں؟

بیان میں مزید کہا گیا کہ اسرائیلی حملے بین الاقوامی اصولوں اور کنونشنز کی کھلی خلاف ورزی ہیں اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ اسرائیل پورے خطے کے لیے وجودی خطرہ بن چکا ہے۔

حماس نے اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ایرانی قیادت اور عوام کو سینئر کمانڈروں اور جوہری سائنس دانوں کی شہادت پر گہری تعزیت پیش کی ہے۔

مزید پڑھیں :پاکستان کی ایران پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت، وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا دو ٹوک ردعمل

یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب خطے میں ایران اور اسرائیل کے درمیان براہِ راست فوجی تصادم کے خطرات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، اور متعدد عالمی قوتیں کشیدگی کم کرنے کی کوشش میں ہیں۔


ایراناسرائیل تصادم: تنازعات کو طاقت نہیں سفارت سے حل کیا جائے، روس


روس نے ایران پر اسرائیل کے بعد بڑھتی ہوئی کشیدگی پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کے مطابق ماسکو خطے میں کسی بھی قسم کی بے قابو صورت حال کے فوری خاتمے کا خواہاں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تمام فریقوں کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے، کیونکہ مزید کشیدگی ‘کسی کے مفاد میں نہیں۔

یروس نے اس تناؤ کو پوری خطے کے لیے خطرناک قرار دیا اور تمام فریقین سے اپیل کی کہ اس سے پرہیز کریں ۔

کریملین کی یہ تنبیہ عالمی سطح پر جاری کوششوں کے پیشِ نظر آئی ہے، جن میں خلیجی ممالک، اقوامِ متحدہ اور مغربی طاقتیں علاقے میںمعاہدے اور سامراجی اقدامات کے ذریعے استحکام پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

ماسکو کا مؤقف ہے کہ تنازعات کا حل طاقت سے نہیں بلکہ سفارتی بات چیت سے نکالا جائے، تاکہ یہ حقیقت بدلتے ہوئے خطرے میں مبتلا مشرق وسطیٰ کو مزید خونریزی سے بچایا جا سکے۔


ایرانی سپریم لیڈر نے جنرل محمد پاکپور کو پاسداران انقلاب کا نیا سربراہ مقرر کردیا


ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے بریگیڈیئر جنرل محمد پاکپور کو پاسدارانِ انقلاب اسلامی (IRGC) کا نیا سربراہ مقرر کر دیا ہے۔ یہ تقرری جنرل حسین سلامی کی اسرائیلی فضائی حملے میں شہادت کے بعد کی گئی ہے۔

یہ اعلان سپریم لیڈر کے دفتر سے جاری باقاعدہ فرمان کے ذریعے کیا گیا، جو سرکاری میڈیا پر نشر ہوا۔ تقرری ایک ایسے وقت میں عمل میں آئی ہے جب خطے میں اسرائیل کے وسیع فضائی حملوں کے باعث شدید کشیدگی پیدا ہو چکی ہے۔ ان حملوں میں ایران کے متعدد فوجی اور جوہری مراکز کو نشانہ بنایا گیا، جن کے نتیجے میں کئی اعلیٰ کمانڈر اور سائنس دان جاں بحق ہوئے۔

مزید پڑھیں: اسرائیلی جارحیت پر ایران کا انتباہ: ‘صیہونی حکومت کو بھاری قیمت چکانا ہوگی’

جنرل محمد پاکپور اس سے قبل پاسداران انقلاب کی زمینی فورسز کے کمانڈر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں اور خطے میں ایران کی عسکری حکمت عملی کے ماہر سمجھے جاتے ہیں، خصوصاً عراق اور شام میں ان کا عملی کردار نمایاں رہا ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے بیان میں کہا کہ آپ کی عسکری وابستگی، تجربہ اور پاسدارانِ انقلاب کی اسٹریٹجک ضروریات سے واقفیت کے پیشِ نظر، میں آپ کو پاسداران انقلاب کا نیا سربراہ مقرر کرتا ہوں۔

یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ایرانی میڈیا نے جنرل حسین سلامی کی شہادت کی تصدیق کی ہے۔ سلامی 2019 سے پاسداران انقلاب کے سربراہ تھے اور ایران کی مزاحمتی فوجی پالیسی کا مرکزی چہرہ سمجھے جاتے تھے۔ ان کے ہمراہ میجر جنرل غلام علی رشید اور جوہری سائنس دان ڈاکٹر فریدون عباسی بھی اسرائیلی حملوں میں شہید ہوئے، جسے ایران کی سیکیورٹی قیادت کے لیے سنگین دھچکا تصور کیا جا رہا ہے۔


ایران پر حملے جاری رہیں گے جب تک خطرہ مکمل ختم نہ ہو جائے: اسرائیل


اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو نے ایران پر جاری حملوں کے حوالے سے واضح کیا ہے کہ اسرائیل کا فوجی آپریشن اس وقت تک جاری رہے گا جب تک وہ ایران سے درپیش خطرے کو مکمل طور پر ختم نہ کر دے۔

یہ بھی پڑھیں:اسرائیل کے مذہبی پیشواؤں نے یہودیوں کو عبادت گاہوں میں نہ جانے کا مشورہ کیوں دیا؟

ایک ریکارڈ شدہ ویڈیو پیغام میں نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ اسرائیل نے ایران کے خلاف ایک منظم اور مخصوص کارروائی کا آغاز کیا ہے، جس کا مقصد اُس خطرے کا خاتمہ ہے جو ان کے بقول اسرائیل کے وجود کو لاحق ہے۔ انہوں نے اس کارروائی کو ’رائزنگ لائن‘ (ابھرتا ہوا شیر) کا نام دیا ہے۔

نیتن یاہو کے مطابق اسرائیلی افواج نہ صرف ایرانی کمانڈرز کو نشانہ بنا رہی ہیں بلکہ میزائل بنانے والی فیکٹریوں پر بھی حملے کیے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تہران سے ممکنہ میزائل اور ڈرون حملوں کے پیشِ نظر ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:عالمی برادری کی طرف سے ایک بار پھر جنگ بندی کا مطالبہ نتین یاہو نے مسترد کردیا

اسرائیلی وزیراعظم نے بتایا کہ اسرائیل نے ایران کے جوہری پروگرام کے اہم مراکز، جن میں نطنز کی افزودگی تنصیب اور بیلسٹک میزائل پروگرام کی تنصیبات شامل ہیں، پر براہِ راست حملے کیے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان حملوں میں وہ ایرانی سائنسدان بھی نشانہ بنائے گئے جو جوہری بم کی تیاری پر کام کر رہے تھے۔

نیتن یاہو نے اسے اسرائیل کی تاریخ کا ایک فیصلہ کن لمحہ قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل اس وقت ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں فیصلہ کن اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp