جمعہ کی علی الصبح ایران کے دارالحکومت تہران اور دیگر صوبوں پر اسرائیل کی جانب سے کیے گئے وسیع پیمانے پر فضائی حملوں میں اسلامی انقلابی گارڈ کور (IRGC) کے چیف کمانڈر میجر جنرل حسین سلامی شہید ہو گئے ہیں۔
غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق، اسرائیلی حملے میں پاسداران انقلاب کے کئی دیگر سینئر کمانڈرز اور ایٹمی سائنسدان بھی شہید ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:جوہری عدم پھیلاؤ کی خلاف ورزی پر ایران کیخلاف انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی قرارداد منظور
ان حملوں نے تہران سمیت ایران کے مختلف علاقوں میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی۔
ایرانی سرکاری نشریاتی ادارے IRIB نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایرانی مسلح افواج کے مرکزی کمان کے سربراہ میجر جنرل غلام علی رشید بھی ان حملوں میں شہید ہو گئے ہیں۔
شہید جوہری سائنسدانوں میں مہدی طہرانچی، فریدون عباسی، عبدالحمید منوچہر، احمدرضا ذوالفقاری، امیرحسین فقیہی اور مطلب علیزادہ شامل ہیں، جب کہ خاتم الانبیا ہیڈکوارٹرز کے کمانڈر میجر جنرل غلام علی راشد بھی شہید ہوگئے ہیں۔
تاہم، ایرانی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف، میجر جنرل محمد باقری محفوظ ہیں اور اس وقت وار روم (جنگی کمانڈ مرکز) میں موجود ہیں۔ ان کے زخمی یا جاں بحق ہونے سے متعلق گردش کرتی افواہوں کو جھوٹا قرار دیا گیا ہے۔
یہ حملے مقامی وقت کے مطابق جمعہ کی صبح تقریباً 3 بجے شروع ہوئے، جب تہران میں شدید دھماکوں کی آوازیں سنائی دیں۔ اس کے بعد ایران کے مختلف صوبوں میں پے در پے دھماکوں کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ سوشل میڈیا پر گردش کرتی ویڈیوز میں تہران اور دیگر شہری علاقوں میں تباہی کے مناظر دیکھے جا سکتے ہیں، جسے مبصرین نے اسرائیل کی ’اندھی جارحیت‘ قرار دیا ہے۔
اسرائیلی حکومت نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے نطنز، خرمآباد، خنداب اور دیگر مقامات پر اہم اہداف کو نشانہ بنایا۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی IRNA نے ایک سکیورٹی ذریعے کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایران اس اسرائیلی دہشتگردی کا ’فیصلہ کن جواب‘ دینے کی تیاری کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ایران کے جوہری طاقت بننے کا خواب پورا نہیں ہونے دیں گے، صدر ٹرمپ
یہ اسرائیلی جارحیت اُس وقت کی گئی ہے جب خطے میں کشیدگی اپنے عروج پر ہے، اور اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو سمیت اعلیٰ عہدیدار مسلسل جنگی بیانات دے رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس حملے کی منظوری دی، حالانکہ تہران اور واشنگٹن کے درمیان بالواسطہ جوہری مذاکرات کا عمل جاری تھا۔ متوقع چھٹے دور کی بات چیت، جو اتوار کو ہونا تھی، اب ملتوی کیے جانے کا امکان ہے۔