قومی اسمبلی نے ایران پر اسرائیل کے حملے کے خلاف شدید مذمت کرتے ہوئے متفقہ قرارداد منظور کرلی۔ قرارداد میں اسے ایرانی خودمختاری پر حملہ اور بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی قرار دیا گیا۔
اسپیکر سردار ایاز صادق کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں وزیرِ پارلیمانی امور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے معمول کی کارروائی مؤخر کرنے کی تحریک پیش کی تاکہ ایوان ایران پر اسرائیلی حملے پر اپنا مؤقف واضح کر سکے۔ تحریک منظور کرلی گئی۔
پیپلز پارٹی کے سینئر رکن سید نوید قمر نے تحریک انصاف کے رکن ملک عامر ڈوگر اور قائد حزبِ اختلاف عمر ایوب خان سے مشاورت کے بعد قرارداد کا مسودہ ایوان میں پیش کیا، جسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔
قرارداد میں کہا گیا کہ پاکستان کی پارلیمنٹ ایران پر اسرائیل کے بلااشتعال حملے کی شدید مذمت کرتی ہے۔ یہ حملہ ایرانی خودمختاری، سلامتی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ حکومت، عوام اور پارلیمان ایران کے ساتھ مکمل اظہارِ یکجہتی کرتے ہیں۔ قرارداد میں ایرانی افواج اور شہریوں کو نشانہ بنانے، اور ایرانی سائنس دانوں اور فوجی کمانڈروں کی شہادتوں کی بھی شدید مذمت کی گئی۔
مزید پڑھیں: اسرائیلی حملے میں جاں بحق ایرانی سائنسدانوں میں کون کون شامل ہے؟
مسلم دنیا ہوش کے ناخن لے، بیرسٹر گوہر
چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر علی خان نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ مسلم دنیا کو بیدار ہونا ہوگا، اور فوری طور پر او آئی سی اور عرب لیگ کی ہنگامی کانفرنس بلانی چاہیے۔
اسرائیل غزہ کو صفحۂ ہستی سے مٹا چکا ہے، شام پر حملہ کر چکا ہے، اور اب ایران پر حملہ کرکے پوری مسلم دنیا کو کھلی دھمکی دے رہا ہے۔ یہ عمل عالمی جنگ کی دعوت ہے۔
دنیا کی خاموشی اسرائیل کو شہ دے رہی ہے، رانا تنویر
وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے کہا کہ اگر عالمی برادری نے اسرائیل کو غزہ میں بربریت سے نہ روکا ہوتا، تو آج ایران پر حملے کی نوبت نہ آتی۔ دنیا کی خاموشی اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کو تقویت دے رہی ہے۔ پاکستان نے ایران پر حملے کی مذمت کی ہے اور وزیراعظم بھی اپنا مؤقف دے چکے ہیں۔
مزید پڑھیں: اسرائیلی حملے میں جاں بحق ایرانی سائنسدانوں میں کون کون شامل ہے؟
اسرائیل کا حملہ پاکستان کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی، راجا پرویز اشرف
پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے کہا کہ ایران پر حملے سے اسرائیل کے عزائم کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ یہ حملہ صرف ایران نہیں، بلکہ پورے خطے، خصوصاً پاکستان کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب مسلم دنیا کی نظریں ایک بار پھر پاکستان پر ہیں۔ اگر اسرائیل کو روکنا ہے تو مسلم امہ کو متحد ہو کر قدم اٹھانا ہوگا، کیونکہ مغرب کی جانب سے کوئی روک تھام ممکن نہیں۔