صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی دوسری مدت میں امن کا عہد کیا تھا، لیکن اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری فوجی تصادم نے ان کا عہد اور ان کی حمایت میں تقسیم پیدا کر دی ہے۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ایک طرف ٹرمپ نے اسرائیلی حملوں کی حمایت کی ہے، تو دوسری طرف ان کے حامی اور ریپبلیکن پارٹی کے کچھ دائیں بازو کے رہنما امریکا کو اس جنگ میں ملوث نہ ہونے کی وکالت کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:صدر ٹرمپ کا ایران کو امریکا پر حملہ نہ کرنے کا مشورہ اور اسرائیل سے پُرامن معاہدے کی پیشکش
الجزیرہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ٹرمپ کی ’امریکا فرسٹ‘ پالیسی کے حامل حامیوں کا خیال ہے کہ امریکا کو دوسرے ممالک کے تنازعات میں اپنا خون بہانے کی ضرورت نہیں۔
کچھ ہاؤس رائٹس کا موقف ہے کہ اگر اسرائیل جنگ کرنا چاہتا ہے تو اس کا اپنا حق ہے، لیکن امریکا کو اس میں شامل نہ ہونا چاہیے۔
امریکا کی جانب سے اسرائیل کی آندھی حمایت کے نتیجے میں ’ڈراپ اسرائیل‘ یعنی اسرائیل کو چھوڑ دو کے مطالبات سامنے آ رہے ہیں۔
یہ جنگ امریکی مفادات کے خلاف ہے
صحافی ٹکر کارلسن جیسے معروف کمنٹیٹر نے کہا ہےکہ اگر لوگ اس جنگ سے متاثر ہو سکتے ہیں، تو یہ جنگ امریکی مفادات کے خلاف ہے۔
سب سے پہلے امریکا
ریپبلکن سیاستدان رینڈ پال نے بھی خبردار کیا کہ امریکی عوام لمبی جنگوں کے خلاف ہیں، اور انہوں نے ٹرمپ کو ہدایت کی کہ امریکا کو اول رکھیں، اور دوسرے ملکوں کی جنگوں میں نہ پڑیں۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ٹرمپ نے خود اسرائیلی حملوں سے پہلے خبردار کیا تھا، لیکن بعد میں واضح کیا کہ امریکا اس میں شامل نہیں۔ بعد میں انہوں نے ایران اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدے کی بھی بات کی اور کہا تھا کہ “یہ خونریز تنازع آسانی سے ختم ہو سکتا ہے ۔