لاہور ہائیکورٹ نے زمان پارک پولیس تشدد کے واقعات کے لیے قائم جے آئی ٹی کی تشکیل کے خلاف درخواستوں کا فیصلہ محفوط کرلیا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی بننے کی وجوہات عدالت کےسامنے رکھی جائیں اور کیا یہ ٹیم بنانا پولیس کا استحقاق ہے۔ اس پر ایڈیشنل آئی جی پنجاب پولیس نے کہا کہ جےآئی ٹی کی منظوری کابینہ نے دی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ ابتدائی تفتیش کےبغیر جے آئی ٹی کیسے بنادی گئی اور کابینہ کو بھی پولیس نے ہی سفارشات بھیجیں وہ کس بنیاد پر تھیں۔ عدالت نے یہ بھی دریافت کیا کہ اس جے آئی ٹی کی تشکیل کا جوجواز ہے وہ بتایا جائے۔
اس پر سرکاری وکیل نے بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف کے 400 سے زائد کارکنان کےمسلح ہونے کی اطلاعات تھیں جنہوں نے پولیس پرحملے کیے اور افسران کو زخمی کیا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ ان کیسز میں تو آئی جی پنجاب اور صوبائی حکومت پارٹی ہیں تو پھر وفاق کی بجائے وہ خود ہی جے آئی ٹی کیسے بناسکتے ہیں۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ انہوں نے تو تفتیش میں شمولیت اختیار نہیں کی تو پھر وہ کیسے جے آئی ٹی کی تشکیل کو چیلنج کرسکتے ہیں۔
پیشی کے دوران فواد چوہدری کے وکیل نے کہا کہ زمان پارک کے واقعات پر دہشت گردی کےمقدمے کیسے بنادیے گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پولیس کےاقدام سے لوگ گھروں سے نکلنا بند ہوگئے اور ان میں بیحد خوف پھیل گیا۔
فواد چوہدری کے وکیل کا کہنا تھا کہ پولیس نے جو کچھ کیا وہ سارے ملک اور پوری دنیا نے دیکھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پولیس نے بڑے دعوے سے کہا تھا کہ ڈی ایس پی زخمی ہو لیکن اگر ایسا تھا تو رپٹ میں اس بات کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا۔