قمیص کی موریوں سے جھانکتی سادگی

ہفتہ 6 مئی 2023
author image

حماد حسن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سادگی یا مکاری کا اندازہ قمیص کی موریوں سے نہیں بلکہ کردار، طرز عمل اور عملی رویے سے لگایا جاتا ہے، اور یہی پیمانہ عمران خان کے حوالے سے بھی ہوگا جن کے عقیدت مند انہیں سادگی کا دیوتا سمجھ رہے ہیں۔

ہم پہلے 1992ء میں جھانکتے ہیں۔ کرکٹ ورلڈکپ چونکہ اس وقت اتنا مقبول کھیل نہیں تھا اس لیے پوری دنیا سے ورلڈ کپ میں صرف 8 ٹیمیں حصہ لے رہی تھیں۔

پاکستان نے فائنل جاوید میانداد، وسیم اکرم اور عاقب جاوید کی شاندار کارکردگی کی بدولت جیتا لیکن  ٹیم کیپٹن عمران خان نے خلاف روایت اپنے پلیئرز کی تعریف کیے بغیر ٹرافی اْٹھائی، البتہ موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے منصوبے یعنی شوکت خانم ہسپتال کو پروجیکشن کے عروج پر پہنچا دیا، تاہم یہ ٹرافی کلائیولائیڈ اپنے ملک ویسٹ انڈیز اور رکی پونٹنگ اپنے ملک آسڑیلیا کے لیے بحیثیت کپتان دو دو بار اْٹھا چکے ہیں۔

بھارتی ٹیم کے کپتان کپل دیو اپنے ملک کے لیے 1983ء کا ورلڈ کپ اس حالت میں جیت چکے تھے جب پوری بھارتی ٹیم پسپا ہو چکی تھی لیکن کپل دیو نے تن تنہا کالی آندھی یعنی ویسٹ انڈیز  ٹیم کے برق رفتار اور خوفناک باؤلروں مائیکل ہولڈنگ، میلکم مارشل، کرافٹ اور جوئیل گارنر کے پرخچے اْڑا کر رکھ دیے تھے اور ورلڈ کپ بھی جیت لائے تھے۔

ایلن بارڈر، رانا ٹنگا، دھونی، اسٹیو وا اور مائیکل کلارک بھی بحیثیت کپتان کرکٹ ورلڈ کپ جیت چکے ہیں، لیکن ان میں سے کسی ایک نے بھی اپنی جیت کو سیاسی اسٹنٹ نہیں بنایا نہ اس کا کوئی سیاسی یا سماجی فائدہ اْٹھایا کیونکہ یہ لوگ نہ صرف اچھے اسپورٹس مین تھے بلکہ اسپورٹس مین اسپرٹ سے آگاہ بھی تھے۔ جب کہ دوسری طرف عمران خان اس معمول کی کامیابی کو اپنے مالی سماجی اور سیاسی فوائد کے لئے بھی استعمال کرتے رہے حتیٰ کہ دھرنوں، جلاؤ گھیراؤ اورمارو پیٹو تک لے کر آئے۔(علاوہ ازیں مالی حوالے سے شدید بے ضابطگیاں جبکہ سیاسی حوالے سے ناکامیاں اور اخلاقی مسائل بھی سامنے آئے)۔

اب شوکت خانم ہسپتال کی طرف آتے ہیں۔ یہ یقینًا عمران خان کا ایک بڑا کارنامہ ہے لیکن کیا یہ کارنامہ اس نے اکیلے سرانجام دیا؟ پشاور کا ایک معذور نوجوان مجھے بتا رہا تھا کہ جب میں پانچویں کلاس میں تھا تو میں سارا دن اسکول میں بھوکا پیاسا رہتا کیونکہ ڈیڑھ مہینے تک گھر سے ملنے والا پاکٹ منی میں شوکت خانم ہسپتال کو چندہ دینے کے لیے بچا رہا تھا اور جس دن عمران خان نے ہمارے اسکول کا وزٹ کیا تو میں نے وہ سارے پیسے اس کے ہاتھ پر رکھ دیے۔

اس ہسپتال کے لیے زمین پنجاب حکومت اور پیسہ عوام نے دیا لیکن اپنے علاوہ کسی اور کا نام لینا تو درکنار شکریہ تک ادا نہیں کیا گیا، گویا جاوید میانداد، وسیم اکرم اور عاقب جاوید کی تاریخ یہاں بھی دہرائی گئی۔

اب کچھ ذکر 1996ء کا کرتے ہیں۔ عمران خان نے تحریک انصاف کی بنیاد رکھی لیکن یہ یوسفِ بے کارواں اکیلا ہی پھرتا رہا یہاں تک کہ چھ سال بعد دو ہزار دو میں اس کے ہاتھ بمشکل قومی اسمبلی کی ایک سیٹ ہاتھ آئی۔

پاکستان کا سیاسی مزاج یہ ہے کہ کوئی پارٹی اپنے قیام کے ساتھ ہی عوامی مقبولیت حاصل نہ کرے تو سمجھ لینا کہ ناکامی ہی مقدر ہے (پیپلز پارٹی اور نون لیگ اس حوالے سے کامیاب جب کہ مصطفیٰ جتوئی کی نیشنل پیپلز پارٹی اور فاروق لغاری کی ملت پارٹی ناکامی کے حوالے سے بڑی مثالیں ہیں) لیکن اپنے قیام کے 16 سال بعد اکتوبر 2011ء کے ایک جلسے نے اچانک گلی گلی ’انقلابی‘ پیدا کر دیے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 16 سال سے ’صاف چلی شفاف چلی‘ تحریک انصاف بھی موجود تھی اور اس کا ’ڈٹ گیا کپتان‘ بھی میدان میں تھا، تو پھر یہ ’انقلابی کارکن‘ کس غنودگی میں چلے گئے تھے جو 30 اکتوبر 2011ء کی رات اچانک  نمودار ہو گئے، لیکن چلو یہ سوال تاریخ پر چھوڑ دیتے ہیں۔

اب ایک نگاہ موجودہ منظرنامے پر ڈالتے ہیں۔ ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ عمران خان کو بعض قوتوں نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا اور اس کے ذریعے طاقتور سیاسی اور جمہوری قوتوں کو پچھے دھکیل دیا، لیکن جب ہم معاملات کا باریک بینی کے ساتھ غیر جذباتی انداز میں جائزہ لیتے ہیں تو چونک جاتے ہیں، کیونکہ معاملہ عمومی تاثر کے برعکس ہے، یعنی عمران خان استعمال نہیں ہوا بلکہ اس نے خود دوسروں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔

آپ پوچھ سکتے ہیں ’کیسے؟‘

تو عرض ہے کہ 2013ءکے الیکشن میں عمران خان کے بھاری بھر کم اور طوفانی جلسوں سے یہ تاثر لیا جارہا تھا کہ وہ الیکشن جیت جائیں گے، اس لیے اس کے سر پرست سائیڈ لائن پر کھڑے صرف تماشا دیکھتے رہے لیکن الیکشن کے نتائج آتے ہی سب حیران و پریشان تھے۔ کیونکہ اٹک سے رحیم یار خان تک نواز شریف پورے پنجاب میں صفایا کر چکے تھے۔ اب عمران خان کو یہ بات سمجھ آنے لگی تھی کہ نواز شریف سے الیکشن جیتنا ان کے بس کی بات نہیں اس لیے انہوں نے نئے ’راستوں‘ کا انتخاب کیا۔

ایک طرف انہوں نے اپنے کارکنوں اور عوام کو باور کرایا کہ میرے علاوہ باقی لیڈرز چور اور کرپٹ ہیں، انہیں یقین دلایا کہ میرے اقتدار میں آتے ہی آپ کی زندگی میں شاندار تبدیلی آ جائے گی اور سادہ لوح عوام ان وعدوں سے بہل گئے۔ دوسری طرف عمران خان مقصد وزیر اعظم اور مقتدر طبقے کو ایک دوسرے کے مقابل لانا تھا۔

نواز شریف چونکہ اسٹیبلشمنٹ کے روایتی حلیف رہے ہیں اور یہ دونوں (نواز شریف اوراسٹیبلشمنٹ) اختلافات کے باوجود بھی کسی نہ کسی حد تک ایک دوسرے کے لیے قابل قبول بھی تھے۔ مثلاً نواز شریف نے فوجی سربراہ جہانگیر کرامت کو برطرف کیا تھا لیکن فوج نے برداشت بھی کیا تھا اور مان بھی لیا تھا۔ اسی طرح مشرف کے ہاتھوں نواز شریف حکومت کا خاتمہ اٹک جیل اور جلا وطنی بھی نواز شریف کو پوائنٹ آف نو ریٹرن پر کبھی نہیں لے کر گئی بلکہ انہوں نے اپنی سیاسی گولہ باری ہمیشہ پرویز مشرف کی ذات تک محدود رکھی تھی، اور اس کے ساتھ ہی وہ انہیں ہمیشہ ’مشرف صاحب‘ کہہ کر پکارتے رہے۔

2013ء کا الیکشن جیتنے کے صرف دو دن بعد آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی متوقع وزیر اعظم کو مبارکباد اور بریفنگ دینے رائے ونڈ بھی گئے اور ایک خوشگوار ملاقات بھی ہوئی۔ اب چاہیے تو یہ تھا کہ وزیر اعظم ہاؤس اور پنڈی کے درمیان اعتماد بڑھتا اور معاملات اثبات کی طرف چل پڑتے، لیکن عمران خان سیاسی ٹمپریچر انتہائی غیر فطری انداز سے بڑھا کر منتخب وزیر اعظم کا امیج تباہ کرنے میں جُٹ گئے۔ بد قسمتی سے عمران خان کو پنڈی سے تھپکی بھی ملنے لگی اور اس تھپکی کو عمران خان نے بہت مہارت کے ساتھ اپنے ’منصوبے‘ کے لیے استعمال کیا۔

پھر وہ وقت آیا کہ وہ نواز شریف جنہوں نے آرمی چیف کی برطرفی، اٹک جیل اور جلاوطنی جیسے انتہائی مشکل اور پُر آشوب حالات میں بھی اپنے اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اختلاف کی دراڑ کو ایک حد سے آگے بڑھنے نہیں دیا تھا، عمران خان کی ’مہارت و چابکدستی‘  اور باجوہ اور فیض حمید جیسے کرداروں کی مفاد پرستی سبب ملک کے مقبول ترین جماعت اور اسٹیبلشمنٹ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا  ہو گئے۔

دوسری طرف گالم گلوچ، فتوے، میڈیا ٹرائل، ثاقب نثار کی عدالت گردی، خادم حسین رضوی کا شرمناک دھرنا،  گولی مارنے، جوتے اور سیاہی پھینکنے تک کے واقعات محترم اداروں کے ہاتھوں میں تھما دیے گئے۔

اس دوران ردعمل میں  نواز شریف ایک خوفناک بیانیہ لے کر سڑکوں پر نمودار ہوئے اور پھر آنکھوں نے وہ منظر بھی دیکھا کہ پنجاب جیسے صوبے میں بھی وہ نعرے لگنے لگے جو وزیرستان میں لگتے رہے، لیکن اہم سوال یہ ہے کہ اس سارے کھیل میں نقصان کس کا ہوا اور فائدہ کس نے اْٹھایا؟

نقصانات کی فہرست طویل بھی ہے اور خوفناک بھی، لیکن فائدہ صرف ایک شخص نے اْٹھایا اور اس کا نام عمران خان ہے جو آر ٹی ایس کے ذریعے  وزیراعظم ہاؤس میں جا بیٹھا۔ اور پھر اقتدار سے بے دخلی کے بعد اپنے محسنوں یعنی فوج کے خلاف غددار، جانور، میر صادق و میر جعفر اور طنز و تضحیک کا بیانیہ ایک ’غول‘ کے طرف پھینک دیا۔

صاحب کی شخصیت میں بحیثیت ایک کھلاڑی، سیاستدان اور وزیراعظم وہ احسان فراموشی اور خود پسندی کا پہلو نمایاں ہے، تاہم عمران خان کے پیروکاروں کو اب بھی یقین ہے کہ ان کی قمیص کی موریوں سے سادگی جھانک رہی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp