اسرائیلی برتری کا خاتمہ، مغرب کا چہیتا ملک زوال کا شکار

جمعہ 20 جون 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اسرائیل پچھلے تقریباً 2 برس سے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مسلسل جنگ میں ہے۔ حالیہ جنگ کا آغاز 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے سے ہوا، جس کے جواب میں اسرائیل نے ایک بھرپور فوجی مہم شروع کی۔

یہ مہم رفتہ رفتہ پورے خطے تک پھیل گئی اور اب ایران جیسے محتاط ملک کو بھی اس جنگ میں گھسیٹ لیا گیا ہے، حالانکہ ایران طویل عرصے سے براہِ راست تصادم سے گریز کرتا رہا تھا۔

 امریکا کی پشت پناہی سے یہ تصادم اب کہیں زیادہ خطرناک رخ اختیار کر چکا ہے۔ ایران ایک کٹھن دوراہے پر کھڑا ہے، جہاں ہر راستہ نقصان دہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں:اسرائیل ایران تصادم: نیتن یاہو کی ڈوبتی سیاست کو کنارہ مل گیا

تاہم یہ تحریر ایران پر نہیں بلکہ اسرائیل سے متعلق ہے۔ وہ ملک جو دہائیوں سے مشرق وسطیٰ میں مغربی طاقتوں کا مضبوط مورچہ رہا ہے۔ 20ویں صدی کے وسط سے اسرائیل کو ایک خاص مقام حاصل رہا ہے، ایک ایسے خطے میں مغرب کی طاقت کا نمائندہ جو خود سیاسی تنازعات کا شکار ہے۔

اسرائیل کی کامیابی 2 ستونوں پر کھڑی تھی، ایک امریکا کی غیر متزلزل حمایت، اور دوسری خود اسرائیل کی اپنی اندرونی صلاحیت، فوجی طاقت، ٹیکنالوجی، اور ایک منفرد معاشرتی ماڈل۔

مگر دوسرا ستون اب کمزور ہو چکا ہے۔ اس کی سب سے واضح علامت ملک چھوڑنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہے۔ 2024 میں تقریباً 82,700 افراد اسرائیل چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ ہے۔ اور یہ وہ افراد نہیں جو کم تعلیم یافتہ یا غیر متحرک ہوں، بلکہ نوجوان اور تعلیم یافتہ لوگ ہیں،  وہی لوگ جو کسی جدید ریاست کی بنیاد ہوتے ہیں۔

اگرچہ اسرائیل کی مشکلات منفرد نہیں، لیکن دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح وہ بھی ایک بوسیدہ معاشی نظام کی بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ کورونا وبا نے اس نظام کی کمزوریاں مزید بے نقاب کیں اور اسرائیل کو ایسی حکمرانی کی طرف دھکیل دیا جس میں ہنگامی حالات اور مسلسل جنگی تیاری معمول بن چکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:اسرائیل مخالف گروپ کا صیہونی انفراسٹرکچر پر سائبر حملوں کا اعلان

 مغرب میں عمومی طور پر جنگ اور جغرافیائی کشیدگی کو اصلاحات سے بچنے کا ایک ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔ اسرائیل اس نئی منطق کا عملی نمونہ بن چکا ہے۔

مستقل جنگ بطور طرزِ حکمرانی۔ 2023 کے موسمِ خزاں میں اسرائیلی قیادت نے جنگ کو صرف ایک حکمت عملی نہیں بلکہ قومی یکجہتی اور سیاسی بقا کا ذریعہ بنا لیا۔ اب امن ان کا مقصد نہیں، بلکہ جنگ ان کا راستہ ہے۔ یہ وہی رجحان ہے جو روس اور چین کے خلاف مغربی پراکسی جنگوں میں بھی نظر آتا ہے۔

عالمی سطح پر ایٹمی طاقت جنگ کی حد مقرر کرتی ہے، مگر مشرق وسطیٰ میں، جہاں اسرائیل براہِ راست لڑ رہا ہے، وہ رکاوٹیں نہیں ہوتیں۔ اس لیے جنگ ایک سیاسی دباؤ کو نکالنے والا ذریعہ بن گئی ہے۔ وقتی فائدے کی چیز، خواہ وہ تباہ کن ہی کیوں نہ ہو۔

مگر ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔ جنگ معیشت کی زبوں حالی یا سماجی بے چینی کو ہمیشہ نہیں چھپا سکتی۔ اگرچہ جنگ اکثر نااہل قیادت کو بھی اقتدار میں رکھتی ہے، لیکن ساتھ ہی ریاست کی طاقت کو بھی کھوکھلا کرتی ہے۔

اسرائیل اب اپنے وسائل کا بڑا حصہ جنگی حالات کو برقرار رکھنے میں جھونک رہا ہے۔ اس کی معاشرتی یکجہتی کمزور ہو رہی ہے، اور جو ترقی و ٹیکنالوجی کا ماڈل ایک وقت میں مثالی تھا، وہ اب ماند پڑ چکا ہے۔

مغربی یروشلم میں بعض لوگ شاید یہ خواب دیکھ رہے ہوں کہ مشرق وسطیٰ کو طاقت اور خوف کے ذریعے نئی شکل دی جا سکتی ہے، اور اس سے اسرائیل کو چند دہائیوں کا سکون نصیب ہو جائے گا۔ مگر ایسا ہونا یقینی نہیں۔ کسی پڑوسی کو کچلنے سے خطرہ ختم نہیں ہوتا، وہ صرف مزید قریب آ جاتا ہے۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ اسرائیل کے گہرے مسائل بیرونی نہیں بلکہ اندرونی ہیں، جو اس کے سیاسی اور معاشرتی نظام کی کوتاہیوں میں پوشیدہ ہیں۔

بے شک جنگ کسی ریاست کی شناخت بن سکتی ہے۔ مگر ایسی ریاستیں مثلاً اسپارٹا یا شمالی کوریا، ہمیشہ غیر معمولی ہوتی ہیں، اور ان کے لیے بھی جنگ کبھی اصل سفارتکاری، پالیسی یا ترقی کا متبادل نہیں ہو سکتی۔

سوال یہ ہے کیا اسرائیل جو ہمیشہ جنگ میں رہا، واقعی ایک ترقی یافتہ ریاست ہے؟ یا وہ صرف امریکی خارجہ پالیسی کا ایک حصہ، ایک اڈا رہا ہے جو سیاسی، فوجی اور مالی امداد سے قائم رہا؟

اگر اسرائیل نے مستقل جنگ اور دائیں بازو کی قوم پرستی کی راہ اپنائی رکھی، تو وہ مغرب کے لیے ایک پُل بننے کی حیثیت کھو سکتا ہے اور ایک تنہا، عسکری قلعے کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ کمزور، الگ تھلگ، اور دنیا سے کٹا ہوا۔

رشیا ٹوڈے میں شائع مضمون کے لکھاری تیموفے بورداچیف، ولادی کلب کے پروگرام ڈائریکٹر ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp