ذشتہ کئی برسوں کے دوران ’نظم و ضبط، ٹھوس تکنیک اور مستقل مزاجی‘ کا استعارہ بننے والے پاکستانی کرکٹ ٹیم کے 28 سالہ ریکارڈ ساز کپتان بابر اعظم اپنی کامیابی کو اس سخت جانفشانی کا ثمر قرار دیتے ہیں، جو انہوں نے انڈر 15 کی سطح پر کرکٹ میں اپنے باضابطہ آغاز سے روا رکھی ہے۔
بابر اعظم نے اپنا 100 واں ون ڈے انٹرنیشنل میچ کراچی میں کھیلنے سے قبل پاکستان کرکٹ بورڈ کی پوڈ کاسٹ کے 46 ویں ایڈیشن میں انٹرویو دیتے ہوئے اپنے کیریئر کے دلچسپ واقعات اور چیلنجز کے بارے میں تفصیل سے گفتگو کی ہے۔
پی سی بی کی ڈیجیٹل میڈیا ٹیم کو انٹرویو کے دوران دائیں ہاتھ کے شاندار بلے باز بابر اعظم نے اس لمحے کو خصوصی طور پر یاد کیا جب انہیں پہلی بار قومی ٹیم میں شمولیت کی اطلاع ملی۔ ان کے مطابق یہ مکمل طور پر ایک مختلف احساس تھا۔
’میرے سلیکشن کے بارے میں باتیں ہو رہی تھیں لیکن جب مجھے فون آیا کہ آپ کا نام پاکستانی ٹیم میں آگیا ہے تو اس وقت میں اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھا تھا، میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔‘
In the 4️⃣6️⃣th edition of the PCB Podcast, @babarazam258 talks in detail about his cricketing journey ahead of his 1️⃣0️⃣0️⃣th ODI appearance.
📝 https://t.co/4XxX5XKbLu
🎥 https://t.co/BNwwOtWgDk
⏪ https://t.co/M8m5PdlQ6W pic.twitter.com/Zl0a5nF3F4— Pakistan Cricket (@TheRealPCB) May 6, 2023
بابر اعظم کہتے ہیں کہ جب وہ ایک پاکستانی کھلاڑی کی حیثیت سے قذافی اسٹیڈیم میں پہلی بار داخل ہوئے تو انہیں اپنا وہ وقت بھی یاد آیا جب وہ اسی اسٹیڈیم میں گیند چننے والے کے طور پر آتے تھے۔
’وہ ٹیسٹ میچ انضی بھائی کا آخری میچ تھا جب میں پاکستانی ٹیم کو بولنگ کرنے آیا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ ایک وہ وقت تھا جب میں پاکستانی ٹیم کو بولنگ کرنے آیا تھا اور اب میں خود پاکستانی ٹیم کا حصہ ہوں۔‘
بابر اعظم کا کہنا تھاکہ وہ پاکستانی ٹیم کو بولنگ کرتے وقت ان کے ذہن میں یہی آرزو تھی کہ انہیں بھی پاکستانی کرکٹرز کی طرح ایک دن اپنے ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے عالمی کرکٹ کا حصہ بننا ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کی اکیڈمی میں شمولیت کے لیے اپنی محنت کے دنوں کا ذکر کرتے ہوئے بابر اعظم نے بتایا کہ اس دور میں بسوں کا سفر مزے کا ہوتا تھا۔ کبھی رش کی وجہ سے وہ کرایہ کے پیسے بچالیتے تو بعد میں ان پیسوں سے سموسے کھایا کرتے تھے۔
کرکٹ ٹیم کی کپتانی تک اپنے کیریئر کے حوالے سے بابر اعظم اپنے والدین کی قربانیوں کو ناقابلِ فراموش سمجھتے ہیں۔ پہلی بار جب ان کے والد نے بیٹ خریدنے کے لیے پیسے نہ ہونے کا عذر دیا تو ان کی والدہ نے اپنے پلے جوڑے ہوئے پیسے انہیں دیے تاکہ وہ بیٹ اور اپنی پوری کٹ خرید سکیں۔
بابر اعظم کے مطابق کرکٹ کے ابتدائی دنوں سے ان کے والد نے ہر قدم پر ان کی رہنمائی اور خامیوں کو دور کرنے کی انتھک کوششیں کیں۔غلطی پر ان سے ڈانٹ اور مار بھی پڑی لیکن ان کے کیریئر میں ان کے والد کا کردار بہت اہم رہا ہے۔
سچوئیشن کے لحاظ سے بلے بازی کے ضمن میں بابر اعظم خاص طور پر پاکستانی ٹیم کے سابق کوچ مکی آرتھر کے معترف نظر آئے۔
’ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز سے قبل میرا خیال تھا کہ اگر بڑا اسکور نہیں کیا تو ڈراپ ہوسکتا ہوں لیکن مکی آرتھر کا کہنا تھا کہ کوئی دباؤ نہ لیں، آپ ڈراپ نہیں ہوں گے اپنی پوری صلاحیت کے ساتھ کھیلیں۔‘
پاکستانی ٹیم کی قیادت کو اعزاز سمجھنے والے بابراعظم کے مطابق ابتدا میں انہیں کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر پھر صورتحال نارمل ہوتی گئی۔ ’آپ وقت کے ساتھ ساتھ سیکھتے ہیں۔ آپ کھلاڑیوں کو جتنی کلیئرٹی اور اعتماد دے سکتے ہیں وہ خود آپ کے لیے بہتر ہوتا ہے اور ٹیم کے لیے بھی۔‘