فرانس کے صدر ایمانویل میکرون نے خبردار کیا ہے کہ عالمی برادری کو فوری اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی سے علیحدگی سے روکا جا سکے، اس معاہدے کے تحت ایران پر جوہری ہتھیار حاصل کرنے پر پابندی عائد ہے۔
ایرانی سیاستدانوں نے حالیہ امریکی اور اسرائیلی حملوں کے جواب میں اس معاہدے سے دستبرداری کی دھمکی دی ہے، جن میں ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
اگرچہ صدر میکرون نے ان حملوں کو حقیقی معنوں میں مؤثر قرار دیا تھا لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ بدترین ممکنہ صورتحال یہ ہوگی کہ ایران ہتھیاروں پر کنٹرول کے اس تاریخی معاہدے سے نکل جائے۔
یہ بھی پڑھیں:امریکا، اسرائیل نے ایران پر حملوں کے لیے آئی اے ای اے کی معلومات استعمال کیں، روس
یورپی یونین کے برسلز میں منعقدہ اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر میکرون نے کہا کہ بدترین صورتحال یہ ہوگی کہ ان حملوں کا نتیجہ ایران کی این پی ٹی سے علیحدگی ہو، جس سے ایک اجتماعی کمزوری اور بگاڑ جنم لے سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہ کہ ہماری امید ہے کہ مختلف فریقین کے درمیان مؤثر ہم آہنگی قائم ہو، کیونکہ ہمارا مقصد ایران کی ممکنہ جوہری سرگرمیوں کی بحالی کو روکنا ہے۔
صدر میکرون نے بتایا کہ فرانس اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے دیگر چار مستقل ارکان – امریکا، برطانیہ، روس، اور چین – سے آئندہ چند دنوں میں مشاورت کرے گا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایران سے متعلق فرانس کے حالیہ روابط کے بارے میں آگاہ کیا ہے، جن میں آخری چند گھنٹوں کے دوران ہونے والی بات چیت بھی شامل ہے۔
مزید پڑھیں:امریکا کے ایران کے خلاف آپریشن ’مڈنائٹ ہیمر‘ کی تفصیلات سامنے آگئیں
اقوامِ متحدہ کی جوہری توانائی کی ایجنسی آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گروسی نے کہا ہے کہ اگر ایران اس معاہدے سے علیحدہ ہوتا ہے تو یہ انتہائی افسوسناک ہوگا۔
22 جون کو جس دن امریکا نے فردو سمیت تین ایرانی جوہری تنصیبات پر حملہ کیا تھا تو ایرانی پارلیمنٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے سربراہ عباس گل رو نے کہا تھا کہ ایران کو قانونی طور پر اس معاہدے سے علیحدگی کا حق حاصل ہے، بعد میں انہوں نے کہا کہ ارکانِ پارلیمان اس معاہدے میں ایران کی شمولیت کا ازسرنو جائزہ لیں گے۔
واضح رہے کہ رواں ہفتے کے آغاز میں، ایرانی پارلیمنٹ نے آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون معطل کرنے کے حق میں ووٹ دیا ہے، اس فیصلے کے بعد سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے ایجنسی پر الزام عائد کیا کہ وہ ان حملوں کی مناسب مذمت کرنے میں ناکام رہی ہے۔
ایران کا کہنا ہے کہ وہ کسی فوجی جوہری پروگرام کے پیچھے نہیں ہے اور اس کا یورینیم کی افزودگی کا حق صرف پُرامن اور سول مقاصد کے لیے ہے۔














