سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے فیصلے کے خلاف دائر نظرثانی درخواستوں منظور ہوگئیں جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) مخصوص نشستوں سے محروم ہوگئی ہے۔
اس اہم فیصلے کے بعد حکومت کو قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل ہوجائے گی جبکہ تحریک انصاف کے بجائے مخصوص نشستیں ن لیگ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی سمیت دیگر جماعتوں کو دی جائیں گی۔
سپریم کورٹ نے 5 کے مقابلے میں 7 کی اکثریت سے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھ کر سپریم کورٹ کے 12 جولائی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا۔
اکثریتی فیصلہ دینے والے ججز میں بینچ کے سربراہ سربراہ جسٹس امین الدین، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس عامر فاروق، جسٹس ہاشم کاکڑ ،جسٹس علی باقر نجفی شامل تھے۔
تحریری حکمنامہ میں کہا گیا ہے کہ 2 ججز، جسٹس عایشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے پہلے دن ہی ان درخواستوں کو مسترد کردیا تھا، جبکہ جسٹس صلاح الدین پنہور نے بینچ سے علیحدگی اختیار کی۔
فیصلے کے بعد قومی اسمبلی کی 22 اور صوبائی اسمبلی کی 55 نشستیں حکومتی اتحاد کو مل جائیں گی۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی نے 80 امیدواروں کی نامزدگی کا ازسرنو جاٸزہ لینے کی ہدایت کی اور کہا کہ الیکشن کمیشن 15 دنوں میں طے کرے کہ کس جماعت کی کتنی مخصوص نشستیں بنتی ہیں۔
واضح رہے کہ یکم مارچ 2024 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستوں کے لیے نااہل قرار دیا تھا۔ 14 مارچ 2024 کو پشاور ہائی کورٹ نے اس فیصلے کے خلاف درخواست کو مسترد کر دیا تھا جسے بعدازاں سپریم کورٹ نے 12 جولائی 2024 کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دے دیا تھا۔
آخری سماعت کا احوال
اس سے قبل جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 11 رکنی آئینی بینچ نے کیس کی 17 ویں سماعت مکمل کرکے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا اور پھر کچھ دیر بعد یہ مختصر فیصلہ سنا دیا۔
سماعت کے دوران حکومتی خواتین ارکان کے وکیل مخدوم علی خان کی جانب سے جواب الجواب کا سلسلہ جاری رہا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ہدایت کی کہ دلائل کو جواب الجواب کی حد تک محدود رکھا جائے، جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ وہ کوئی نئی بات نہیں کریں گے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ان کی خواہش ہے کہ سپریم کورٹ کا پرانا نظام بحال ہونا چاہیے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’بہت ہوچکا ہے‘۔
وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مختصر حکمنامے میں رول 94 کو غیر آئینی قرار نہیں دیا گیا، جبکہ عدالت نے تفصیلی فیصلے میں ایسا کیا۔
یہ بھی پڑھیے: سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست دائر
انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ مختصر حکم نامے سے متصادم تفصیلی فیصلہ برقرار نہیں رہ سکتا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ شارٹ آرڈر میں ہم اتنا ہی کہتے ہیں، وجوہات بعد میں دی جاتی ہیں، اور یہ کہ شارٹ آرڈر تو بالکل ہی مختصر ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ جو بات شارٹ آرڈر میں نہیں کہی گئی، وہ تفصیلی فیصلے میں نہ آئے۔ ان کا سوال تھا کہ اگر سب کچھ شارٹ آرڈر میں ہو جائے تو تفصیلی فیصلے کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے؟
مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ جس چیز کو شارٹ آرڈر میں غیر قانونی نہیں کہا گیا، اسے تفصیلی فیصلے میں کیسے غیر قانونی قرار دیا جا سکتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ تفصیلی فیصلے میں کہاں مختصر حکمنامے سے انحراف کیا گیا؟ انہوں نے کہا کہ شارٹ آرڈر کے حق میں ہم 50-100 وجوہات لکھ سکتے ہیں۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ ان لوگوں نے ایک ایسی جماعت میں شمولیت اختیار کی جسے مخصوص نشستیں نہیں مل سکتی تھیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر تمام آزاد امیدوار مل کر نئی جماعت بھی بنا لیں تو وہ ضرور بنا سکتے ہیں، لیکن ایسی صورت میں بھی انہیں مخصوص نشستیں نہیں مل سکتیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ مخصوص نشستوں کے لیے عام انتخابات میں کم از کم ایک نشست جیتنا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کے بارے میں 13 ججز کا متفقہ فیصلہ تو وہ مان ہی رہے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ نظرثانی درخواست میں ریلیف لینے کے لیے عاجزی اختیار کرنا پڑتی ہے، جو چیز ہنسی خوشی سے لی جا سکتی ہے وہ لڑ کر حاصل نہیں کی جا سکتی، اور کسی کی تضحیک کر کے کچھ بھی نہیں لیا جا سکتا۔
دوران سماعت جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ عدالتیں سماعت میں کسی فریق کی پارٹی نہیں بنتیں، جو آپ نے پڑھا اس سے لگتاہے کہ پی ٹی آئی نے پوری قوم کو ہیجان میں مبتلا کر رکھا ہے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ اصل غلطی پی ٹی آئی کے وکیلوں کی ہیں جن کی ابھی اور تربیت کی ضرورت تھی۔
ہمیں گالیاں پڑ رہی ہیں
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پشتو کی ایک کہاوت ہے، جس میں ایک شخص نے کسی کو بیل 5-4 دن کے لیے دیا۔ جب وہ شخص بیل واپس لینے گیا تو جس نے بیل لیا تھا، اس نے بیل کو بھی اور مالک کو بھی گالیاں دیں۔ اس وقت مالک نے کہا کہ یہ میری غلطی ہے، نہ بیل دیتا نہ آج گالیاں سنتا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پی ٹی آئی والا معاملہ بھی ایسا ہی ہے، ہم نے وہ دے دیا جو مانگا ہی نہیں گیا تھا، پھر بھی ہمیں گالیاں پڑ رہی ہیں۔
خواتین کو ان کے حق سے محروم رکھا جا رہا ہے
جسٹس امین الدین نے کہا کہ ایک تاثر یہ دیا گیا جیسے خواتین کو ان کے حق سے محروم رکھا جا رہا ہے، حالانکہ خواتین سے نشستیں لے کر مردوں کو نہیں دی گئیں۔ مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اٹارنی جنرل روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ عدالت کی جانب سے دیے گئے 27 اے کے نوٹس پر معاونت کروں گا۔
’سپریم کورٹ کو ڈی چوک بنا دیا ‘، ججز اور وکیل حامد خان میں سخت جملوں کا تبادلہ
وقفے سے قبل سپریم کورٹ میں 10 رکنی آئینی بینچ کی سماعت کے دوران وکلا اور ججز کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔ عدالت نے کیس کی سماعت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا، تاہم وکیل حامد خان نے بینچ پر اعتراض کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں:مخصوص نشستوں سے متعلق بینچ ٹوٹ گیا، جسٹس صلاح الدین پنہور نے خود کو الگ کرلیا
دوران سماعت جسٹس ہاشم کاکڑ نے حامد خان سے استفسار کیا کہ آپ نے گزشتہ روز میرے مینٹور قاضی فائز عیسیٰ کا نام لیا، سٹنگ ججز پر الزامات عائد کیے، آپ کو کس نے حق دیا؟ آپ نے کل سپریم کورٹ کو ڈی چوک بنا دیا۔
حامد خان نے مؤقف اپنایا کہ 10 رکنی بینچ اس کیس کی سماعت نہیں کر سکتا۔
جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ یہ کس قانون کے تحت کہہ رہے ہیں؟ ہمیں وہ قانون بتائیں۔
جسٹس مندوخیل نے مزید کہا کہ ہم بارہ کے بارہ کیس سنیں گے، تقریبا کیس کنکلوڈ ہو چکا ہے۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ عزت سے عزت ملتی ہے، آج آپ کی عزت ہے تو سپریم کورٹ کی وجہ سے ہے۔ آج ہم ہیں، کل ہم نہیں ہوں گے۔
حامد خان نے کہا کہ ’آپ غصے میں ہیں، کیس نہ سنیں‘، جس پر جسٹس امین الدین نے جواب دیا کہ ہم نے بینچ بنا دیا ہے، آپ کو اعتراض ہے تو بتا دیں۔
حامد خان نے مؤقف اپنایا کہ 13 رکنی بینچ کے فیصلے پر نظرثانی کو 12 رکنی بینچ نہیں سن سکتا، تاہم جسٹس امین الدین نے اعتراض مسترد کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس: یہاں تو پی ٹی آئی پر سنی اتحاد کونسل کا قبضہ ہے، جسٹس امین الدین خان
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کے وکیل دلائل دے چکے تھے، آپ کے پاس بات کرنے کا حق نہیں تھا۔ ہم نے آپ کو عزت دی۔
حامد خان نے الزام لگایا کہ ’آپ میری زبان بندی کر رہے ہیں‘، جس پر عدالت نے واضح کیا کہ سنی اتحاد کونسل نے فیصل صدیقی کو وکیل مقرر کیا ہے، آپ کو نہیں۔
جسٹس مندوخیل نے کہا کہ آپ کے پاس 10 منٹ ہیں، بات کرنی ہے تو کریں، ورنہ بیٹھ جائیں۔ ہم رولز، قانون اور آئین کے مطابق چلیں گے۔ کوئی غیر متعلقہ بات نہیں سنیں گے۔
دوران سماعت جسٹس مندوخیل نے مزید کہا کہ ہم آپ کو اچھا وکیل سمجھتے ہیں، لیکن جو آپ کر رہے ہیں وہ اچھے وکیل والی بات نہیں۔
حامد خان نے جواب دیا آپ کو کوئی حق نہیں ایسی بات کہیں۔ جس پر جسٹس مندوخیل نے تنبیہ کی کہ ’ایسا نہیں کہ ہمیں سختی کرنا نہیں آتی‘۔
مزید دلائل دیتے ہوئے حامد خان نے کہا کہ ’جوڈیشل کمیشن بینچ بناتا ہے‘، جس پر جسٹس مندوخیل نے پوچھا ’جوڈیشل کمیشن کس قانون کے تحت بینچ بناتا ہے؟‘
حامد خان نے جواب دیا کہ ’26ویں ترمیم کے تحت، آرٹیکل 191 اے کے تحت بینچز بنتے ہیں۔
جسٹس مندوخیل نے جواباً کہا کہ آپ 26ویں ترمیم کے مخالف ہیں، تو اس پر کیسے انحصار کر رہے ہیں؟‘
حامد خان نے کہا کہ اسی لیے کہا تھا کہ 26ویں ترمیم پر پہلے فیصلہ کر دیں۔
جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ قانون کا حوالہ دیں گے تو آپ کو کل تک سنیں گے۔
جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ ہم نے آپ کا نکتہ نوٹ کر لیا، آگے بڑھیں۔
دوران سماعت جسٹس ہاشم کاکڑ نے حامد خان سے استفسار کیا کہ آپ نے گزشتہ روز میرے مینٹور قاضی فائز عیسیٰ کا نام لیا، سٹنگ ججز پر الزامات عائد کیے، آپ کو کس نے حق دیا؟ آپ نے کل سپریم کورٹ کو ڈی چوک بنا دیا۔
سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آزاد امیدواروں کو قانون کے مطابق 3 دن کے اندر کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہونا ہوتا ہے۔
انہوں نے استفسار کیا کہ کیا نوٹیفکیشن کے بعد الیکشن کمیشن، ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ سے کسی نے یہ درخواست کی کہ انہیں مخصوص نشست دی جائے؟
انہوں نے واضح کیا کہ عدالت نے ہر ممکن موقع فراہم کیا۔ ہم نے آپ کو اتنے شارٹ پچ بال دیے کہ آپ چھکے لگا سکتے تھے، لیکن آپ نہ لگا سکے۔
انہوں نے کا مزید کہنا تھا کہ عدالت نے پی ٹی آئی کو بھی بارہا موقع دیا کہ وہ آکر عدالت میں اپنا مؤقف پیش کرے، لیکن وہ پیش نہ ہو سکے۔
جسٹس مندوخیل نے کہا کہ علی محمد خان عدالت میں موجود تھے، ہم نے دس مرتبہ کہا کہ کوئی روسٹرم پر آ جائے، لیکن کوئی نہیں آیا۔
انہوں نے شمولیت کے عمل پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ معذرت کے ساتھ، یہ جاننا ضروری ہے کہ کس طرح سیاسی جماعت میں شمولیت کا فیصلہ کیا گیا؟ اس نوعیت کے فیصلے کی باقاعدہ تحقیقات ہونی چاہییں۔
جسٹس مندوخیل نے افسوس کا اظہار کیا کہ اب اس سارے نقصان کا ملبہ عدالت پر ڈالا جا رہا ہے، حالانکہ عدالت نے فریقین کو مکمل موقع دیا۔
انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ قوم کو گمراہ کیا جا رہا ہے، اور ضروری ہے کہ حقائق سامنے لائے جائیں۔ جسٹس مندوخیل نے یاد دلایا کہ سنی اتحاد کونسل کو 13 رکنی بینچ نے واضح طور پر بتایا تھا کہ ان کا حق نہیں بنتا۔
انہوں نے کہا کہ عدالت اس وقت ہی کوئی فیصلہ کرتی ہے جب اس کے سامنے 2 فریق موجود ہوں۔
سماعت کے دوران جسٹس مندوخیل نے خود احتسابی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج تسلیم کرتا ہوں کہ ہم نے بطور عدالت اپنے اختیارات کو بہت پھیلا لیا ہے، اور یہی بات اس وقت کی صورت حال کا باعث بنی ہے۔
اس موقع پر وکیل حامد خان نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اسی لیے میں کہہ رہا ہوں کہ اگر وہ اکثریتی جج بینچ میں موجود ہوتے تو آپ کو بتاتے۔ ان کا اشارہ سابقہ فیصلوں اور ججز کی مختلف آرا کی جانب تھا۔
عدالت میں اس موقع پر سنی اتحاد کونسل کے وکیل حامد خان نے دلائل مکمل کر لیے، جس کے بعد متاثرہ خواتین امیدواران کے وکیل مخدوم علی خان جواب الجواب کے لیے روسٹرم پر آ گئے۔
بینچ ٹوٹ گیا
قبل ازیں سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے فیصلے کے خلاف دائر نظرثانی درخواستوں پر آئینی بینچ نے سماعت کا آغاز کیا تاہم ۔جسٹس صلاح الدین پنوار کی بینچ سے علیحدگی کے بعد 11 رکنی بینچ ٹوٹ گیا۔
یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ: مخصوص نشستوں کے فیصلہ کیخلاف نظرثانی درخواستوں کی کازلسٹ جاری
سماعت کے دوران سنی اتحاد کونسل کے وکیل حامد خان نے دلائل کا آغاز کیا، تاہم اسی دوران جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیے کہ’حامد خان صاحب، آپ سن رہے ہیں؟ آپ کو آواز آرہی ہے یا نہیں؟‘۔
جس پر حامد خان نے جواب دیا کہ ’جی میں سن رہا ہوں‘۔
جسٹس پنہور نے کہا کہ 2010 سے ہمارا ساتھ رہا ہے، مگر آپ کی طرف سے میرے بینچ میں بیٹھنے پر اعتراض افسوس ناک ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جن ججز پر 26ویں آئینی ترمیم کے بعد بینچ میں شامل ہونے پر اعتراض کیا گیا، ان میں میں بھی شامل ہوں۔
جسٹس پنہور نے عدلیہ پر عوام کے اعتماد کو ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر کسی فریق کو بینچ پر اعتراض ہو تو یہ مناسب نہیں کہ ہم بیٹھے رہیں۔
انہوں نے واضح طور پر کہا کہ میں ان وجوہات کی بنا پر اس بینچ کا مزید حصہ نہیں رہ سکتا۔
بینچ ٹوٹنے کے بعد عدالت نے سماعت میں 10 منٹ کا وقفہ کر دیا۔
اٹارنی جنرل کے دلائل
اٹارنی جنرل کے رول 94 کو غیر آئینی قرار دینے کے خلاف دلائل دیتے ہوئے کہا کہ رول 94 کو کہیں چیلنج ہی نہیں کیا گیا تھا، کیس کے دوران کسی نےاس پر دلائل بھی نہیں دیے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ کیا آپ یقین سے کہہ سکتے ہیں کسی نے اس پر دلائل نہیں دیے؟
جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ بالکل کسی نے نہیں کیا، ریکارڈنگ نکال کر دیکھ لیں، تفصیلی فیصلے میں رول 94 کی وضاحت کو کالعدم قرار دیا گیا، مختصر حکمنامے میں رول94 کا ذکر ہی نہیں تھا۔
جسٹس نعیم افغان نے پوچھا کہ رول 94 پر میں نے فیصل صدیقی سے پوچھا بھی تھا، فیصل صدیقی نے کہا تھا ہم رول 94 کو چیلنج نہیں کر رہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کو نظرثانی میں رول 94 سے متعلق پیراگراف حذف کرنا ہو گا، الیکشن ایکٹ کارول 94 اس کے نتیجے میں وضاحت سمیت بحال ہوگا۔
عدالت نے اٹارنی جنرل کو وقفے کے بعد 15 منٹ میں دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کردی۔
پس منظر:
سپریم کورٹ نے حالیہ فیصلے میں سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں دینے سے انکار کیا تھا، جس کے بعد سنی اتحاد کونسل سمیت دیگر متعلقہ فریقین نے نظرثانی کی درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔
کیس کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ گئی ہے کہ مخصوص نشستیں پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں پارلیمانی طاقت کے توازن کو متاثر کرتی ہیں۔
آج کی سماعت میں بینچ کے اندر اختلاف رائے اور اعتراضات کے بعد ایک بار پھر آئینی معاملات پر عدلیہ کے اندرونی اتحاد اور غیرجانب داری پر بحث چھڑ گئی ہے، جس کے سیاسی اور قانونی اثرات آنے والے دنوں میں مزید نمایاں ہو سکتے ہیں۔