نیویارک کے میئر امیدوار ظہران ممدانی کو ابتدائی جیت کے بعد اسلاموفوبیا کا سامنا

ہفتہ 28 جون 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

نیو یارک سٹی کے میئر کے امیدوار ظہران  ممدانی کو ڈیموکریٹک پرائمری میں غیر متوقع کامیابی کے بعد اسلام مخالف آن لائن حملوں کا سامنا ہے، جن میں جان سے مارنے کی دھمکیاں اور ان کی جیت کو 11 ستمبر 2001 کے حملوں سے تشبیہ دینے جیسے بیانات شامل ہیں۔

مسلم حقوق کی وکالت کرنے والی تنظیم کیر ایکشن کے مطابق، پول بند ہونے کے بعد صرف ایک دن میں ممدانی یا ان کی مہم سے متعلق نفرت پر مبنی کم از کم 127 پرتشدد رپورٹیں درج ہوئیں، جو کہ اس ماہ کے آغاز میں درج کی جانے والی روزانہ کی اوسط تعداد سے 5 گنا زیادہ ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بھارتی دائیں بازو کی قوتیں ظہران ممدانی کی کامیابی پر برہم کیوں ؟

اس عرصے میں تقریباً 6,200 آن لائن پوسٹس میں اسلام مخالف جملے یا دشمنی کا اظہار کیا گیا، 33 سالہ ڈیموکریٹک سوشلسٹ اور ریاستی قانون ساز ظہران  ممدانی نے منگل کے روز پرائمری میں کامیابی کا اعلان کیا، جب سابق گورنر اینڈریو کومو نے اپنی شکست تسلیم کرلی۔

یوگینڈا میں بھارتی نژاد والدین کے ہاں پیدا ہونے والے ظہران ممدانی نومبر کے عام انتخابات جیتنے کی صورت میں نیویارک شہر کے پہلے مسلم اور جنوبی ایشیائی نژاد میئر ہوں گے۔

کیر ایکشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر باسِم الکرّہ نے کہا کہ ہم تمام جماعتوں کے سرکاری عہدیداروں سے مطالبہ کرتے ہیں، خاص طور پر ان سے جن کے اتحادی ان الزامات کو ہوا دے رہے ہیں کہ وہ اسلاموفوبیا کی کھل کر مذمت کریں۔

مزید پڑھیں:ٹرمپ نے نیو یارک کے امیدوار برائے میئرشپ ظہران ممدانی کو ’کمیونسٹ پاگل‘ قرار دیدیا

کیر ایکشن کا کہنا ہے کہ وہ نفرت انگیز مواد پر نظر رکھنے کے لیے سوشل میڈیا پوسٹس کی خودکار نگرانی، عوام کی جانب سے آن لائن رپورٹس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اطلاعات پر انحصار کرتا ہے۔ ان کے مطابق، ممدانی کے خلاف 62 فیصد اسلام مخالف پوسٹس سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کی گئیں۔

بدھ کے روز، ریپبلکن کانگریس کی رکن مارجوری ٹیلر گرین نے مجسمۂ آزادی کی ایک آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے تیار کردہ تصویر شیئر کی جس میں اسے برقعہ میں ملبوس دکھایا گیا تھا۔

اس پر مشرق وسطیٰ اور اسلام کے ماہر مورخ، علی اے علومی نے کہا کہ اصل میں مجسمۂ آزادی کا ڈیزائن ایک مسلم عورت، یعنی مصری کسان عورت، پر مبنی تھا، انہوں نے بتایا کہ اسے اصل میں مصر کے لیے تحفے کے طور پر تیار کیا گیا تھا لیکن بعد میں امریکا کو پیش کیا گیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے اتحادیوں نے ظہران ممدانی کی مخالفت کرتے ہوئے ان پر اور ان جیسے دیگر افراد پر ڈیموکریٹس کے انتہاپسند بائیں بازو سے تعلق رکھنے کا الزام عائد کیا ہے۔

نیو یارک پولیس ڈیپارٹمنٹ نے رواں ماہ کے آغاز میں بتایا تھا کہ ان کا ہیٹ کرائم یونٹ ظہران ممدانی کے خلاف اسلام مخالف دھمکیوں کی تحقیقات کر رہا ہے۔

’اسٹاپ اے اے پی آئی ہیٹ‘ کی بانی منجوشا کلکرنی اور کیر نے کہا کہ ممدانی پر ہونے والے حملے ان مظالم سے مشابہ ہیں جو دیگر جنوبی ایشیائی اور مسلم سیاسی رہنماؤں جیسے کملا ہیرس، الہان عمر، اور رشیدہ طلیب کے ساتھ بھی کیے گئے۔

ریپبلکنز نے ظہران ممدانی کو اسرائیل کے خلاف بیانات اور فلسطین کی حمایت کی بنیاد پر یہودی مخالف قرار دیا ہے، لیکن ظہران ممدانی نے واضح کیا ہے کہ وہ یہود دشمنی کی مذمت کرتے ہیں، انہیں نیویارک سٹی کے یہودی شہری نگران بریڈ لینڈر کی حمایت حاصل ہے، جو خود بھی ڈیموکریٹک پرائمری میں امیدوار تھے۔

مزید پڑھیں: نیویارک میئر کے لیے پہلے مسلمان امیدوار ظہران ممدانی کون ہیں؟

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے غزہ پر حملے کے بعد سے امریکا میں یہود مخالف اور اسلام مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے، جن میں کچھ مہلک واقعات جیسے واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانے کے 2 ملازمین پر فائرنگ اور الینوائے میں ایک مسلم بچے کا چاقو سے قتل بھی شامل ہیں۔

ظہران ممدانی اور دیگر فلسطین کے حمایتی، جن میں کچھ یہودی تنظیمیں بھی شامل ہیں، کا کہنا ہے کہ اسرائیل پر تنقید کو غلط طور پر یہود دشمنی سے جوڑا جا رہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp