پاکستان میں تقریباً 13,000 گلیشیئرز ہیں اور گرمی کی وجہ سے تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ ان کا پانی دریاؤں سے مل کر سیلابی صورتحال پیدا کر رہا ہے، جس سے ڈھانچے، نقل و حمل کے راستے، مشینری اور انسانی جانوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:خیبر پختونخوا کے شمالی علاقوں میں گلیشیئر پھٹنے کا خدشہ، پی ڈی ایم اے کا الرٹ جاری
2025 کی عالمی آب و ہوا رپورٹ (Climate Rate Index) کے مطابق، 2022 کے ڈیٹا کی بنیاد پر پاکستان دنیا کا سب سے زیادہ متاثرہ ملک قرار پایا جہاں ایک تہائی حصہ زیرِ آب آیا، 33 ملین متاثر ہوئے، 1,700 سے زائد افراد ہلاک اور تقریباً 15 ارب ڈالر کا اقتصادی نقصان گزرا۔
آل جزیرہ کے مطابق پاکستان میں ڈوبنے والے علاقے نہ صرف گھروں کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ تاریخی آثار، سکول، ہسپتال، پینے کا صاف پانی اور صحت کی سہولیات بھی تباہ ہو رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:’موسمیاتی تبدیلیاں پاکستان کی معیشت کو چاٹ رہی ہیں‘
کہا جا سکتا ہے کہ یہ بحران صرف موسمیاتی نہیں بلکہ سماجی، اقتصادی اور سیاسی ناہمواری کا آئینہ بھی ہے۔
یہ رپورٹ اس عالمی حقیقت کی گواہ ہے کہ پاکستان جیسے کم ذمہ دار ممالک زیادہ قیمت ادا کرتے ہیں، اور عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ موسمی انصاف کے تقاضوں کو سنجیدگی سے قبول کرے۔