عمران خان کا دعویٰ ہے کہ وہ قبائلی کلچر کو سب سے بہتر جانتے ہیں جبکہ حقیقت میں وہ جو کہتے ہیں اس کا قبائلی کلچر سے دور دور تک واسطہ نہیں ہےمیرے بابا عموماً اس بات پر خفا رہتے ہیں کہ میں سیاسی علماء پر تنقید کرتا ہوں اور مفت میں گناہ کماتا ہوں۔ ایک دن باتوں باتوں میں ان سے پوچھا کہ جب میں چھوٹا تھا تو گاؤں کے ایک اتن (قبائلی ثقافتی ڈانس) میں گاؤں کے دو بوڑھی خواتین کو دیکھا تھا؟تو وہ بتانے لگے کہ پرانے زمانے کے لوگوں میں وہ گندگی نہیں تھی جو آج کل ہے۔
ہم نوجوان لڑکے لڑکیاں شادی بیاہ کے موقعوں پر یا قومی معاملات/تنازعات کے موقع پر ڈھول مخلوط اتن کا حصہ ہوتے، جس کو ہمارے علاقائی زبان میں براگائی اتن کہا جاتا تھا۔ ہم نوجوان لڑکے لڑکیاں پہاڑوں پر ایک ساتھ بکریاں چرایا کرتے اور کبھی ایسا نا خوشگوار واقعہ نہیں ہوا کہ کسی نے پرائی لڑکی کی طرف آنکھ بھی اٹھاکر دیکھا ہو۔ بقولِ ان کے یہ تصور بھی محال تھا کہ آپ کسی لڑکی یا خاتون کو ایسی نظر دیکھ بھی سکتے ۔
میں نے پھر سوال کیا کہ مذہبی عقائد کے حوالے سے کیا حالات تھے ؟بتاتے ہوئے ان کے جذبات اور احساسات دیدنی تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان دنوں عبادات کرنے والے اتنی شدت سے یقین بھی رکھتے تھے اور مذہبی فرائض کی ادائیگی کے وقت کی اس زمانے میں مٹھاس بھی اب باقی نہیں رہی۔
باتوں باتوں میں، میں نے بھی بات چھیڑ دی کہ اب تو اتنا پردہ ہے کہ خواتین کے صرف پاؤں دکھائی دیتے ہیں مگر بھوکی نگاہیں پیروں پر ہی کیوں اٹکی رہتی ہیں؟ ایسا کیا ہوا کہ ہم ظاہری پردے میں تو ڈھک گئے مگر باطنی پردہ بالکل ختم ہو گیا انہوں نے میری باتوں کو نظر انداز کردیا مگر ان کے چہرے کے تاثرات میرے سوال کے جواب کے لیے کافی تھیں۔
پیدائش حالانکہ سوویت یونین کے افغانستان میں آنے بعد کی ہے لیکن ڈیپ سٹیٹ کے ان سیاہ پالیسیوں کے قبائلی معاشرے پر پڑھنے والے اثرات بخوبی یاد ہیں۔ قبائلی علاقوں میں کلاشنکوف کلچر بہت دیر سے آیا۔ تھری ناٹ تھری بندوقیں ہی انگریز کے جانے کے بعد سے لوگوں کی پہنچ میں تھیں۔
امریکی مونگ پھلی سے انکار کے بعد سےشروع ہونے والے جہاد کو اتنی وسعت ملی کہ ایک طرف افغان وار لارڈز کے پاس اسلحہ ڈپو ہوا کرتے تھے تو دوسری طرف قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے کئی نامی گرامی افراد کو اسلحہ کے ڈپو ملے۔ان دنوں جن کے پاس اسلحہ کا ڈپو ہوتا ان کے پاس جنگجو گروپ ضرور ہوتا جو افغانستان میں لڑنے کے لیے استعمال ہوتا۔
پاکستان بننے کے بعد قبائلی خطہ ریاستی توجہ سے مکمل طور محروم رہا جس کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کو علاقے میں ذریعہ معاش کبھی میسر نہیں رہا اور یہی وجہ ہے کہ علم کی روشنی سے محروم ان قبائل کو بڑی آسانی کے ساتھ جنگوں میں جھونکا گیا اور اسلحے کے یہ ڈپو یہاں کے لوگوں کے لیے ذریعہ معاش بنے۔
مذہب کے بیوپاریوں کی چاندی ہوگئی اور مذہب کو کاروباری شکل دینے کے لیے سی آئی اے اور اس کے ہمنواؤں نے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیے۔کلاشنکوف کے حصول کے لیے یہاں کے لوگوں کی دوڑ لگ گئی اور یہ سہولت بارڈر کے دونوں اطراف میسر رھی۔ جن لوگوں کی پہنچ ہماری طرف کے کسی ڈپو مالک تک تھی ان کو یہاں سے کلاشنکوف ملا جبکہ کچھ قبائل کابل جاکر وہاں کی حکومت سے کلاشنکوف لینے کی کوشش کرتے جو بڑی آسانی کے ساتھ مل جایا کرتا تھا۔
افغانستان جاکر کلاشنکوف کابل حکومت کے مخالفین کے خلاف لڑنے کے نام پر مل جاتا مگر ایسا کوئی واقعہ یاد نہیں کہ وہ قبائل اس طرف سے لڑے بھی یا بس بندوق لے کر واپس آگئے۔ہمارے گاؤں کا ایک نوجوان بھی کابل سے روسی کلاشنکوف لے کر آیا تھا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کلاشنکوف دیکھنے کے لیے لوگوں کا تانتا بندھ گیا تھا اور جب انہوں نے آٹو میٹک تیس کارتوس فائر کیے تو گاؤں کے اکثر لوگوں نے کلاشنکوف حاصل کرنے کی کوشش شروع کردی تھی۔
اس دوران مارکیٹ میں روسی اور چائینیز کلاشنکوفوں کی بہتات ہوگئی اور لوگ دھڑا دھڑ کلاشنکوف خریدنے لگے۔قبائلی معاشرے میں اسلحہ کے حصول کا ماڈل بالکل ایسا تھا جیسے انڈیا اور پاکستان کا۔ پاکستان کوئی میزائل بناتا ہے تو انڈیا اس سے بہتر میزائل بنانے کی کوشش کرے گا اسی طرح پاکستان اتنے بڑے ملک کے خلاف اپنے ڈیٹرنس برقرار رکھنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتا آیا ہے جس کی وجہ سے ملک معاشی طور پر دباؤ کا شکار رہا ہے ۔
بالکل اسی طرح قبائلی نظام میں دفاع کے لئے (لڑائیوں/جنگ) لوگ اقوام اور شاخیں ایک دوسرے کے مقابلے کے لیے اسلحہ کے حصول کے لیے لگے رہتے۔ وقت کے ساتھ کلاشنکوف سے بات آگے بڑھی، راکٹ لانچرز اور دوشکہ کلاشنکوف کے بعد وہ اسلحہ بنا جو بالخصوص اقوام کی سطح پر خریدنا شروع کر دیا گیا۔
اب جب ہم ریاستی پالیسیوں کے طالب علم کے طور پر دیکھتے ہیں، یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ جس طرح ممالک اسلحہ بنا کر اپنے ریاستوں کی سرحدیں محفوظ بناتی ہیں قبائلی سسٹم بھی بالکل اسی ڈگر پر تھا ۔عمران خان جیسے ہمیشہ منفی سوچنے والوں نے صرف اسلحہ دیکھ کر پشتونوں کو دنیا کے بڑے بڑے پلیٹ فارموں پر دہشت گرد قرار دیا لیکن میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ عمران خان نے قبائلی علاقوں میں موجود اسلحہ ضرور دیکھا مگر اس کلچر میں موجود ان چیزوں کے الف ب کا بھی نہیں پتہ جس کے ذریعے یہاں احتساب کا منظم نظام موجود تھا
میں یہ دعویٰ نہیں کر رہا کہ قبائلی کلچر کوئی انتہائی اچھا تھا اور میں ان لوگوں کا ساتھی رہا ہوں جنہوں نے اس نظام کے خلاف بات کی، عملی جدوجہد کی مگر اس جدوجہد کے بدلے جو کچھ ملا وہ خوفناک ہے اور اس وقت یہاں کوئی واضح نظام موجود نہیں ہے ۔ اشخاص کی مرضی ہے ان کو جہاں ایف سی آر وارا کھاتا ہے وہاں وہ نافذ کرتے اور جن جن جگہوں پر پاکستان پینل کوڈ فایدہ پہنچاتا ہے وہاں وہ نافذ کر دیتے ہیں۔
البتہ اس وقت جب ملک کے دیگر علاقوں میں ہونے والے جرائم اور زیادتیوں کے بارے میں پڑھتا ہوں یا دیکھتا ہوں تو یہ دعویٰ ضرور کر سکتا ہوں کہ اسلحے کے انبار کے باوجود قبائلی معاشرے میں جرائم کا تناسب انتہائی کم تھا۔یقیناً میری بات ان لوگوں کو عجیب لگے گی جنہوں نے قبائلی معاشرے کے بارے میں ساری باتیں قصے کہانیوں میں پڑھی ہیں۔
قبائلی معاشرے میں دشمنیاں ضرور ہوتیں تھیں جو کہ پاکستان کے تمام علاقوں میں موجود ہیں مگر یہاں قبائلی روایات کے مطابق دشمنیوں کے بھی کچھ اصول ہوا کرتے تھے۔یہاں قبیلوں کے مظبوط روایات کے ہوتے ہوئے کوئی شخص کسی دوسرے قبیلے کے لوگوں کے ساتھ ظلم و زیادتی نہیں کر سکتا تھا۔ قبیلوں سے مراد شاخ خیل وغیرہ ہیں جو کہ آج کے موضوع میں تفصیل سے لکھنا ممکن نہیں ہے۔
قبائلی معاشرے میں اگر کوئی شخص کسی کو قتل کردیتا تو علاقے کے لوگ دونوں فریقین کے پاس تعزیت کے لیے جاتے۔ اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ مقتول کے پاس جانا تو بنتا ہے مگر قاتل کے پاس کیوں ؟ دراصل ہمارے ہاں یہ بات ایک تلخ حقیقت بن چکی ہے کہ جنہوں نے کسی کو قتل کیا انہوں نے خود کو بھی ماردیا کیونکہ ان سے بدلہ ضرور لیا جانا ہے اور یہ بات قتل کرنے والے کو بھی معلوم ہوتی ہے اس لیے وہ بھی جب اس حوالے سے بات کرتا ہے تو یہی بتاتا ہے کہ میری مجبوری نہ ہوتی تو کوئی بھلا خود کو کیوں مارے گا؟
میرے خیال میں جرائم کی کمی کا ایک سبب یہ بھی تھا اور ہے۔ پاکستان کے دیگر حصوں میں آپ کئی ایسے واقعات کے بارے میں پڑھتے ہوں گے جہاں پورے کے پورے خاندان مار دیے جاتے ہیں جبکہ قبائلی علاقوں میں ایسے واقعات کم ہوئے ہیں اس کی وجہ بھی یہاں کا مظبوط سسٹم تھا۔
اس طرح کا مجھے ایک واقعہ یاد ہے جب ایک خاندان کے چھ سات افراد کو ماردیا گیا جن میں بچے بھی شامل تھیں اور اس قتل عام کا مقصد مقتولین کے جائیداد ہڑپ کرنا تھا۔جس کے بعد قومی لشکر بنا اور قاتلوں کے گھروں کو جلایا گیا ان کو علاقہ بدر کر دیا گیا اور ان کی جائیدادیں قومی ملکیت قرار دی گئیں۔ ایسے واقعات میں ملوث خاندان آج تک دوبارا علاقے میں داخل نہیں ہو سکیں۔
ہمارے وزیرستانی لہجے میں ایسے واقعات کو خیئی کہا جاتا ہے اور اور خیئیئ تب ہوتی ہے جب کسی خاندان کا کوئی ایک فرد بھی زندہ نہیں رہتا۔قبائلی معاشرہ ایک مظبوط مگر مقامی سسٹم سے منسلک تھا جبکہ اس زمانے میں وہ کردار پولیٹیکل ایجنٹ اور اس کے حواری ادا کیا کرتے تھے جو آج ڈیپ سٹیٹ کے نام پر ہورہا ہے۔
پولیٹیکل ایجنٹ کے دور میں البتہ چیزیں اتنی شدت سے خراب نہیں ہوتیں کیونکہ مقامی سسٹم اس قدر مظبوط تھا کہ ایسا کرنا ممکن نہیں تھا۔ عمران خان صاحب جس کلچر کو جاننے کے دعویدار ہیں وہ اتنا ہے کہ خان صاحب دو تین بار ان علاقوں میں آئے ان کے لیے مخصوص کلاس کے لوگوں نے ہوائی ماحول بنایا جس میں ان کو محض انسانی خواہشات کے مطابق بنائی گئی کہانیاں بتائی گئیں۔ انہوں نے اپنے کتاب میں وزیرستان کے حوالے سے جس طرح کی کہانیاں بتائی ہیں وہ میرے لیے حیران کن تھیں کیونکہ جہاں میں پلا بڑھا مجھے آج تک ایسا کچھ نہیں لگا۔۔
قبائلی کلچر کو نقصان پہنچا کیوں پہنچا کس نے اور کیسے پہنچایا؟ اس پر کسی اور دن لکھیں گے مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ ریاست نے ہم سے چھینا بہت کچھ مگر دیا کچھ نہیں۔۔!