ماسک کیوں پہنا جائے؟

ہفتہ 12 جولائی 2025
author image

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تم ماسک کیوں پہنتی ہو؟ ہم سے سوال کیا گیا۔

کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ ہمیں بار بار کووڈ ہو اور پھر لانگ کووڈ بھی۔۔۔ ہم نے جواب دیا۔

کیا تم نے ویکسین نہیں لگوائی؟ پھر سوال۔

ہم نے فائزر کے 3 انجیکشن بھی لگوائے ہیں اور ماڈرنا کے بھی۔۔۔ ہمارا جواب۔

پھر تو تم محفوظ ہو گئیں نا۔۔۔

نہیں، وائرس بار بار اپنی شکل بدل کر حملہ کر رہا ہے۔ ہم نے کہا۔

تو بھئی اب یہ فلو جیسا ہو گیا نا، روٹین کی بات ۔۔۔ جواب ملا۔

نہیں یہ فلو جیسا نہیں، یہ ایچ آئی وی جیسا ہے جو ایڈز بیماری پیدا کرتا ہے سو اس سے جتنا بچ کر رہا جائے اتنا ہی اچھا۔۔۔ ہم نے جواب دیا۔

اس کا مطلب ہے ویکسین کا کوئی فائدہ نہیں۔۔۔ مایوسی کااظہار۔

فائدہ ہے۔۔۔ اور وہ یہ کہ فوری طور پر موت واقع نہیں ہو گی جیسے سال 2019 میں ہوا مگر جب وائرس کی تبدیل زدہ شکل جسم  میں داخل ہو گی تب لازمی طور پر جسم کو نقصان پہنچائے گی جو کچھ عرصے بعد پتا چلے گا۔

اب لانگ کووڈ کی کہانی سنیے!

3 براعظموں میں مقیم ریسرچر جو کبھی ایک دوسرے سے نہیں ملے مگر ان کی ریسرچ کا تانا بانا ایک دوسرے سے ملتا ہے۔

براعظم یورپ کے ملک اٹلی میں ایک چائلڈ اسپیشلسٹ نے نوٹس کرنا شروع کیا کہ کووڈ کا شکار ہونے والے بچے ٹھیک ہونے کے بعد بھی سانس کی بے ترتیبی اور شدید تھکاوٹ کا شکار تھے۔ کچھ ٹیسٹ کروانے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ جسم میں چھوٹی شریانوں کو نقصان پہنچا ہے اور خون میں جمنے کی صلاحیت زیادہ ہو گئی ہے۔ جس کے نتیجے میں چھوٹے چھوٹے خون کے لوتھڑے جسم میں مختلف شریانوں میں جا کر پھنس جاتے ہیں اور اس عضو کو پہنچنے والا خون یا تو بند ہوجاتا ہے یا انتہائی کم۔

کیا اس وجہ سے ان بچوں میں سانس بے ترتیب اور تھکاوٹ ہونے کی علامات ظاہر ہوئیں؟

کچھ یقین سے نہیں کہا جا سکتا مگر اس  کا کچھ نہ کچھ تعلق ضرور ہے، اس نے سوچا۔

یہ لانگ کووڈ کے بارے میں پہلی تھیوری تھی۔

براعظم  امریکا میں رہنے والے ایک مائیکرو بیالوجسٹ ڈاکٹر نے مشاہدہ کیا کہ کووڈ ہو جانے کے بعد بھی وائرس جسم میں موجود رہتا ہے اور بعد میں نظر آنے والی علامات کا ذمہ دار ہے۔ وائرس کا خاص ٹھکانہ نروز ہیں اور اسی سے بے تحاشا تھکاوٹ کا احساس پیدا ہوتا ہے۔

یہ لانگ کووڈ کے بارے میں دوسری تھیوری تھی۔

براعظم آسٹریلیا میں مقیم یونیورسٹی آف ساؤنڈ ویلز کے ڈاکٹر نے دریافت کیا کہ کووڈ کے بعد انسانی جسم کی قوت مدافعت کا نظام انتہائی بگڑ جاتا ہے۔ وہ سیلز جو کووڈ کے خلاف لڑتے ہیں کبھی نارمل نہیں ہو پاتے۔

یہ لانگ کووڈ کے بارے میں تیسری تھیوری تھی۔

تینوں ریسرچرز نے ان تھیوریز کا آپس میں تعلق دریافت کرنے کی کوشش کی جو لانگ کووڈ کا سبب بنتا ہے۔

یورپین ڈاکٹر نے کہا کہ یہ ایک مثلث کی مانند ہے۔ جسم میں موجود وائرس خون کی شریانوں پر حملہ کرتا ہے، جواباً بلڈ کلاٹس بننے لگتے ہیں یا امیون سسٹم بگڑنے لگتا ہے۔

امریکا میں کووڈ سے مرنے والے 44 لوگوں کے جسم کا معائنہ کیا گیا۔ ان سب کے مختلف اعضا میں وائرس موت کے بعد بھی موجود تھا۔ ان اعضا میں دماغ ، پٹھے اور پھیپھڑے شامل تھے۔

اس ریسرچ کے بعد ایک گیسٹرو انٹرولجسٹ نے ان مریضوں کی انتڑیوں سے مواد لیا جو لانگ کووڈ کے شکار تھے اور یہ دیکھ کر سب حیران رہ گئے کہ وہاں وائرس موجود تھا۔

لانگ کووڈ ہے کیا؟

امریکا کے ادارے سی ڈی سی نے 20 لاکھ مریضوں کا میڈیکل ریکارڈ دیکھنے کے بعد رپورٹ کیا ہے کہ ہر 5 میں سے ایک مریض جسے کووڈ ہوا، ٹھیک ہونے کے بعد لانگ کووڈ کا شکار ہے۔

امریکا میں رہنے والے ایک ایک ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 اور لانگ کووڈ ایک ہی سکے کے 2 رخ ہیں ۔ کووڈ 19 جنہیں ہوایا ہو رہا ہے وہ لانگ کووڈ کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اس کا تناسب ان لوگوں میں زیادہ ہے جنہیں کئی بار کووڈ 19 کے مختلف اسڑینز کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

لانگ کووڈ کی ایک اور اہم علامت برین فاگ ہے یعنی دماغی صلاحیتوں کا کمزور پڑ جانا۔ دماغ کی شریانوں میں ننھے منے کلاٹ پھنس کر ان کو بند کرتے ہیں اور نتیجتاً دماغ کا وہ حصہ بے کار ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کلاٹس نروز کو بلاک کرتے ہوئے انہیں ہلاک کرتے ہیں۔

صاحب، جو بھی ہے وہ کچھ برسوں بعد ہی کھلے گا ، تب تک احتیاط کیجیے کیونکہ احتیاط علاج سے بہتر ہے۔

ماسک پہنیے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp