بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے حکومتِ پاکستان کی جانب سے بغیر ٹیکس چینی درآمد کرنے کے فیصلے پر سخت تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے 7 ارب ڈالر کے جاری بیل آؤٹ پروگرام کی واضح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
حکومتِ پاکستان نے حال ہی میں وفاقی کابینہ کی منظوری سے 5 لاکھ میٹرک ٹن چینی درآمد کرنے کا فیصلہ کیا، جس کے تحت قریباً تمام درآمدی ٹیکسز معاف کر دیے گئے۔ اس فیصلے کا مقصد مقامی منڈی میں چینی کی قیمتوں میں کمی لانا تھا، جو تاریخ میں پہلی بار سرکاری سطح پر 200 روپے فی کلو تک پہنچ چکی ہیں۔
سینیئر صحافی شہباز رانا کے مطابق، وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کو یہ مؤقف پیش کیا کہ یہ اقدام خوراک کی ہنگامی صورتحال کے تحت کیا گیا، مگر آئی ایم ایف نے اس دلیل کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
مزید پڑھیں: چینی کی قیمت پر قابو کی کوشش، حکومت اور شوگر انڈسٹری کے درمیان معاملات طے پا گئے
آئی ایم ایف کے مطابق، پاکستان نے 2 اہم شرائط کی خلاف ورزی کی ہے:
1: کسی قسم کی ٹیکس چھوٹ یا خصوصی مراعات نہ دینے کا وعدہ
2: اشیائے صرف کی سرکاری خریداری یا درآمد سے اجتناب
ایف بی آر کے نوٹیفکیشن کے تحت چینی پر ود ہولڈنگ ٹیکس صرف 0.25 فیصد تک محدود رکھا گیا ہے جبکہ سیلز ٹیکس کی شرح 21 فیصد سے کم کرکے صرف 0.25 فیصد کر دی گئی ہے، اور تمام کسٹم ڈیوٹی معاف کر دی گئی ہے، یہ سب کچھ آئی ایم ایف معاہدے کے برعکس ہے۔
حکومت کی صفائیاں اور اندرونی اختلافات
خبر کے مطابق، وزارتِ خزانہ نے وزیراعظم ہاؤس کو آگاہ کیا کہ کابینہ کا یہ فیصلہ وزیرِ خزانہ کی مشاورت کے بغیر کیا گیا، اور اس سے نہ صرف بیل آؤٹ پروگرام متاثر ہو سکتا ہے بلکہ آئی ایم ایف کے ساتھ جاری اعتماد کو بھی شدید دھچکا لگ سکتا ہے۔
مزید پڑھیں: حکومت کا چینی کی درآمد کا منصوبہ، ٹینڈر جمع کرانے کی آخری تاریخ 18 جولائی مقرر
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ تنازع آئی ایم ایف کی پاکستان میں نئی مشن چیف ایوا گھیرمائی کے لیے پہلا بڑا امتحان بن کر سامنے آیا ہے، جو اس وقت دونوں فریقین کے درمیان بڑھتے ہوئے عدم اعتماد سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
ممکنہ بحران اور چینی کی قلت
حکومت نے پہلے 7 لاکھ 65 ہزار میٹرک ٹن چینی برآمد کی تھی، جس کے نتیجے میں مقامی سطح پر قلت پیدا ہوئی اور قیمتیں غیر معمولی حد تک بڑھ گئیں۔ اب حکومت اکتوبر نومبر میں 5 لاکھ 35 ہزار میٹرک ٹن کی ممکنہ قلت سے نمٹنے کے لیے درآمد پر مجبور ہوئی ہے۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (PSMA) نے خوراک کے وزیر کو یقین دہانی کرائی ہے کہ اگر کرشنگ سیزن جلد شروع کر دیا جائے تو مقامی ضرورت پوری کی جا سکتی ہے۔ جس کے بعد ممکنہ طور پر ٹی سی پی درآمدی ٹینڈر واپس لے سکتی ہے اور نجی شعبے کے لیے دی گئی ٹیکس چھوٹ ختم کی جا سکتی ہے۔