سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی آمدن اور اثاثوں کی جانچ پڑتال کے لیے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں طلب کیے گئے 25 افسران میں سے 20 غیر حاضر رہے اور بعض نے چھٹی لے لی۔
چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نور عالم خان نے اثاثوں کی معلومات کے لیے 25 اعلیٰ افسران کو طلب کر رکھا تھا تاہم چاروں صوبائی چیف سیکریٹریز، سیکرٹری داخلہ، چیئرمین نیب، چیئرمین نادرا، چیئرمین سی ڈی اے، سینئر صوبائی ممبرز بورڈ آف ریونیو اور صوبائی سیکرٹریز ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن غیر حاضر رہے۔
چیئرمین کمیٹی نور عالم خان نے کہا کہ افسران کو کون ڈراتا ہے کہ وہ اجلاس میں نہیں آتے، میں تمام افسران کو وارننگ دیتا ہوں کہ آئندہ اجلاس میں شریک ہوں ورنہ عدم پیشی پر وارنٹ گرفتاری جاری کروں گا۔
کمیٹی اجلاس کے دوران ممبر کمیٹی برجیس طاہر نے تجویز دی کہ ایف بی آر، ایف آئی اے اور اسٹیٹ بینک سمیت دیگر متعلقہ اداروں سے جسٹس مظاہر علی نقوی کا ریکارڈ طلب کر لیا جائے اور چیف سیکرٹریز کی موجودگی تک اجلاس مؤخر کردیں۔
چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے چیئرمین ایف بی آر کو جسٹس مظاہر علی نقوی کے ٹیکس ریٹرن اور ویلتھ اسٹیٹمنٹ فراہم کرنے، گھریلو افراد کے اثاثے، فروخت کی گئی زمینیں اور پلاٹس کی تفصیلات دینے کے ساتھ وزارت ہاؤسنگ کو جسٹس مظاہر علی نقوی کو حکومت کی طرف سے دیے گئے پلاٹس کی تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت کی۔
چیئرمین پی اے سی نور عالم خان نے کہا کہ مجھے قانون حق دیتا ہے جہاں بھی کسی آرمی چیف، چیف جسٹس، وزیراعظم، وزراء یا بیوروکریٹس میں کسی کے آمدن سے زائد اثاثوں کا معاملہ ہو اس کی تحقیقات ایف آئی اے سے یا کسی اور ادارے سے کرواؤں۔
چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے جسٹس مظاہر علی نقوی کے اثاثوں، ویلتھ اسٹیٹمنٹ اور ٹیکس ریٹرن اور پلاٹس کی تفصیلات پر مبنی مکمل ریکارڈ فراہم کرنے کے لیے چاروں صوبوں کے اداروں کو 15 دنوں کی مہلت دے دی ہے۔