ایک یونٹ، 10 ہزار روپے کا فرق: بجلی کے غیرمنصفانہ ٹیرف سسٹم پر سوالات اٹھنے لگے

پیر 21 جولائی 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

حال ہی میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کے اجلاس میں رکن رانا سکندر حیات اور ملک انور تاج نے بجلی کے 201 یونٹ استعمال پر لاگو سلیب پر شدید اعتراض اٹھایا، رانا سکندر نے کہا کہ 200 یونٹ تک بجلی کا بل تقریباً 5,000 روپے آتا ہے، لیکن جیسے ہی یونٹس 201 ہو جاتے ہیں تو بل اچانک 15,000 روپے تک پہنچ جاتا ہے، جو کہ عام صارف کے ساتھ ناانصافی ہے۔

انہوں نے تجویز دی کہ اگر صرف ایک یونٹ کی زیادتی ہو تو صرف اسی مہینے کے لیے نان پروٹیکٹد ریٹ لاگو ہو، بجائے اس کے کہ صارف کو 6 ماہ تک سبسڈی سے محروم رکھا جائے۔ ملک انور تاج نے بھی کمیٹی اجلاس میں مطالبہ کیا کہ 200 اور 201 یونٹ پر آنے والے بل کے فرق کو ایجنڈے میں شامل کر کے اس پر باقاعدہ بحث کی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں بجلی کا استعمال کم ہے، اس لیے قیمت زیادہ ہے، وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری

دوسری جانب سوشل میڈیا پر بھی صارفین بلوں خاص طور پر سلیب کے حوالے سے شدید غصے کا اظہار کر رہے ہیں، مختلف سوشل میڈیا پوسٹس پر صارفین کی جانب سے احتجاجا سلیب ختم کرنے کے حوالے سے بھی بحث جاری ہے، کیا حکومت 201 یونٹ پر لاگو سلیب کو ختم کر سکتی ہے؟ کیا ایسا ممکن ہو سکتا ہے؟

معاشی ماہر راجہ کامران کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بجلی کے نرخ یعنی ٹیرف کا جو نظام رائج ہے، وہ دنیا کے کئی ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے بالکل برعکس ہے، دنیا بھر میں یہ اصول اپنایا جاتا ہے کہ جو صارف جتنی زیادہ بجلی استعمال کرتا ہے، اسے فی یونٹ بجلی سستی ملتی ہے۔

مزید پڑھیں: کیا حکومت واقعی سولر سسٹم پر 50 فیصد سبسڈی دینے جارہی ہے؟

’اس کی وجہ یہ ہے کہ جب صارفین بجلی کا زیادہ استعمال کرتے ہیں، تو وہ گرڈ کے لیے اچھے کسٹمر سمجھے جاتے ہیں، جس سے انفرا اسٹرکچر اور مینٹیننس کی فی یونٹ لاگت کم ہو جاتی ہے لیکن پاکستان میں صورت حال بالکل برعکس ہے۔‘

راجہ کامران کے مطابق یہاں جتنی زیادہ بجلی استعمال کی جائے، فی یونٹ قیمت بھی اتنی ہی بڑھ جاتی ہے، اس کی ایک بڑی وجہ 1960 کی دہائی میں بنایا گیا وہ ٹیرف ڈیزائن ہے، جس کی بنیادی سوچ یہ تھی کہ عوام کو بجلی کم استعمال کرنے پر مجبور کیا جائے، تاکہ پیداوار کی کمی کا بوجھ نہ بڑھے۔

مزید پڑھیں: سرکاری ملازمین وافسران کو مفت بجلی کی جگہ تنخواہ میں اربوں روپے فراہم کرنے کا منصوبہ زیرغور: حکومتی اعتراف

راجہ کامران نے مزید بتایا کہ جب پاکستان کے پاس اپنی سرپلس یعنی اضافی بجلی موجود ہے، یہ ماڈل نہ صرف غیر مؤثر ہو چکا ہے بلکہ معیشت کے لیے بھی نقصان دہ بنتا جا رہا ہے، اس وقت ملک میں بجلی کی کھپت کم ہے اور وافر بجلی ضائع ہو رہی ہے کیونکہ اس کی طلب نہیں بڑھ رہی۔

ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو اب اس پرانی سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے، خاص طور پر 200 یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے لیے، جو پاکستان میں تقریباً 54 فیصد صارفین بنتے ہیں،  ان کے لیے ٹیرف میں ایسی تبدیلیاں لانا ہوں گی کہ وہ زیادہ بجلی استعمال کرنے کی طرف راغب ہوں۔ یہ صرف اسی صورت ممکن ہے جب حکومت انہیں بجلی کے زیادہ استعمال پر سزا دینے کے بجائے کچھ فائدہ فراہم کرے۔

مزید پڑھیں: پنجاب میں بجلی کی قیمت میں کمی کا اہم فیصلہ، عوام کو کتنا فائدہ ہوگا؟

اس وقت حکومت کے اندر مختلف سطحوں پر اس ٹیرف ڈھانچے پر بحث ہو رہی ہے اور مختلف تجاویز پر حساب کتاب مرتب کیا جا رہا ہے، راجہ کامران کا کہنا ہے کہ حکومت کو بجلی کو صرف ایک یوٹیلیٹی یا سروس کے طور پر نہیں، بلکہ ایک بزنس ماڈل کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔

’اگر زیادہ بجلی استعمال کرنے والوں کو فائدہ دیا جائے گا، تو نہ صرف بجلی کے موجودہ اضافی ذخیرے کو مؤثر طریقے سے استعمال میں لایا جا سکے گا، بلکہ معیشت کو بھی فروغ ملے گا، اور عوام کو زیادہ بجلی کم قیمت میں میسر آ سکے گی۔‘

مزید پڑھیں: بجلی کا بِل کم اور ٹیکس دُگنا؟سولر سسٹم لگوانے والے بھی بلبلا اٹھے

معاشی ماہر شہباز رانا سمجھتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے بجلی کے نرخوں کے لیے جو ’سلیب سسٹم‘ متعارف کروایا گیا ہے، وہ کسی طور پر منطقی یا منصفانہ نہیں۔ ’درحقیقت، بجلی کی پیداوار کی ایک مقررہ لاگت ہوتی ہے اور اسی بنیاد پر صارفین کے لیے قیمت کا تعین ہونا چاہیے، سلیب سسٹم کا کوئی تکنیکی یا معاشی جواز نہیں ہے، بلکہ یہ طریقہ کار سراسر غیر منصفانہ ہے۔‘

شہباز رانا کے مطابق حکومت اگر چاہے تو اس نظام کو فوری طور پر تبدیل کر سکتی ہےکیونکہ اس کے پاس مکمل اختیار موجود ہے، لیکن سلیب کے نام پر حکومت صارفین سے اضافی رقم وصول کر رہی ہے، خصوصاً اُن صارفین سے جو اوپر والی سلیب میں آتے ہیں۔

مزید پڑھیں: آئی پی پیز سی پیک کی طرح اہم معاہدے، کسی صورت ختم نہیں کر سکتے، اویس لغاری

’ان سے بجلی کی لاگت سے کہیں زیادہ رقم لی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ سلیب سسٹم کو برقرار رکھا جا رہا ہے، تاکہ آمدنی میں اضافہ ہو، نہ کہ قیمتوں میں شفافیت یا منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے۔‘

معاشی ماہر اشفاق تولہ بھی اس سلیب کے خاتمے کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ 200 سے 201 یونٹ ہو جائیں تو پورا بجلی کا بل ہی بدل جاتا ہے۔ ’ایسا بالکل نہیں ہونا چاہیے، حکومت اگر اس سلیب سسٹم کو ختم کرنا چاہے تو آئی ایم ایف کی مشاورت سے ایسا کرسکتی ہے لیکن مشکل ہی ہے کہ حکومت ایسا کرے۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیسٹ سیریز کی تیاریاں، این سی اے کا تربیتی کیمپ اختیام پزیر

سابق فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی کو 5 سال قید کی سزا

شاہی خاندان کا غیر متوقع اعلان، بالمورل کیسل عوام کے لیے بند

پاکستان کا اقوام متحدہ سے مصنوعی ذہانت کو ضابطہ اخلاق میں لانے کا مطالبہ، فوجی استعمال پر سخت انتباہ

ایشیا کپ: بنگلہ دیش کے خلاف پاکستان کی چوتھی وکٹ گرگئی

ویڈیو

سیلاب متاثرین کی مالی مدد کے نظام کا فیصلہ وفاق کرے گا صوبے نہ کودیں، بی آئی ایس پی چیئرپرسن روبینہ خالد

کوئٹہ: ’آرٹسٹ کیفے تخلیق، مکالمے اور ثقافت کا نیا مرکز

’میڈ اِن پاکستان‘ نمائش: پاکستانی مصنوعات کی بنگلہ دیش میں دھوم مچ گئی

کالم / تجزیہ

بگرام کا ٹرکٖ

مریم نواز یا علی امین گنڈا پور

پاکستان کی بڑی آبادی کو چھوٹی سوچ کے ساتھ ترقی نہیں دی جا سکتی