بلوچستان میں غیرت کے نام پر قتل کا خونی سلسلہ، نصیرآباد سرفہرست

منگل 22 جولائی 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بلوچستان میں غیرت کے نام پر قتل ایک ایسا سنگین اور بھیانک مسئلہ بن چکا ہے جو نہ صرف قیمتی انسانی جانوں کو نگل رہا ہے بلکہ معاشرتی اقداراورعدالتی نظام پر بھی سنگین سوالات اٹھا رہا ہے، حالیہ دنوں میں رونما دو دل دہلا دینے والے واقعات نے اس مسئلے کو ایک بار پھرعوامی توجہ اور تشویش کا مرکز بنا دیا ہے۔

کوئٹہ کے نواحی علاقے سنجیدی ڈگاری میں ایک قبائلی جرگے کے فیصلے پر ایک مرد اور خاتون کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا۔ مقتولہ کی شناخت بانو کے نام سے ہوئی ہے، جو 5 بچوں کی ماں تھی، واقعے کی ویڈیو منظرِ عام پر آنے کے بعد عوامی ردعمل میں شدت آئی اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان: مرد و خاتون کے بہیمانہ قتل کی ویڈیو وائرل، وزیراعلیٰ کا نوٹس، ملزمان کی فوری گرفتاری کا حکم

اسی طرح چند روز قبل نصیرآباد کے تھانہ منگولی کی حدود میں غیرت کے نام پر ایک اور افسوسناک واقعہ پیش آیا، جہاں دو بیٹوں نے اپنے والد کے ساتھ مل کر کاروکاری کے الزام میں اپنی ماں کو گلا دبا کرقتل کردیا، پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے دونوں بیٹوں کو گرفتارکرکے ان کا عدالتی ریمانڈ حاصل کر لیا ہے، جبکہ والد کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

عورت فاؤنڈیشن کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 2019 سے 2024 کے درمیان بلوچستان میں غیرت کے نام پر 212 افراد قتل ہوئے، جبکہ 2025 کے ابتدائی مہینوں میں ایسے مزید 2 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جس کے بعد کل تعداد 214 ہو چکی ہے۔

مزید پڑھیں: چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ نے ڈیگاری میں خاتون سمیت 2 افراد کے قتل کا نوٹس لے لیا

رپورٹ میں فراہم کردہ سال بہ سال اعداد و شمار کے مطابق 2019 میں غیرت کے نام پر 52 افراد، 2020 میں 51 افراد، 2021 میں 24 افراد، 2022 میں 28 افراد، 2023 میں 24 افراد اور 2024 میں 33 افراد قتل کیے گئے۔ مجموعی طور پر ان واقعات میں 19 خواتین بھی شامل تھیں۔

رپورٹ کے مطابق غیرت کے نام پر قتل کے سب سے زیادہ واقعات نصیرآباد میں پیش آئے، جہاں 73 افراد قتل کیے گئے، جو کل واقعات کا 34 فیصد بنتے ہیں۔ اس کے بعد جعفرآباد میں 23 کیس رپورٹ ہوئے جو کل واقعات کا 11 فیصد بنتے ہیں۔

مزید پڑھیں: بلوچستان میں مرد اور خاتون کے قتل کا فیصلہ سنانے والے بلوچ سردار شیزباز خان ساتکزئی کون ہیں؟

جھل مگسی اور مستونگ میں 18 اور 18 یعنی 8 فیصد، کچھی میں 17، کوئٹہ میں 11، قلات میں 7، صحبت پور اور لورالائی میں 6 اور 6  جبکہ خضدار میں 5 کیسز رپورٹ ہوئے، جو مجموعی واقعات کا 2 فیصد بنتے ہیں۔

ان دلخراش واقعات کے باوجود، مجرموں کو انجام تک پہنچانے کے لیے قانونی اور سماجی سطح پر مؤثر اقدامات تاحال ناکافی نظر آتے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں بارہا مطالبہ کر چکی ہیں کہ نہ صرف قانونی کارروائی کو مؤثراورتیزتر بنایا جائے، بلکہ ایسے جرائم کے پیچھے موجود قبائلی اور سماجی دباؤ کا بھی مکمل خاتمہ کیا جائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp