خواتین سیلف ڈیفینس کیسے کرسکتی ہیں؟

بدھ 31 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

خواتین کو نازک مزاج اور کمزور سمجھا جاتا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ خواتین، مردوں کے مقابلے میں کسی بھی غیر یقینی صورتحال کو فوری طور پر نہیں سنبھال پاتیں۔

خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات پوری دنیا میں ہوتے ہیں مگر خواتین یک دم پیش آنے والے واقعہ کے دوران مزاحمت کے بجائے اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتی ہیں۔ ایسی صورتحال کا ڈٹ کر مقابلہ تو دور کی بات انہیں سمجھ ہی نہیں آتا کہ وہ اپنا بچاؤ کیسے کر سکتی ہیں۔

خواتین کو ایسے مسائل کا سامنا ہمیشہ سے رہا ہے مگر اب تک ہمارے معاشرے میں سیلف ڈیفینس کی تربیت اتنی عام نہیں ہے کہ کوئی لڑکی کسی حملہ آور شخص کے سامنے اپنا دفاع کر سکے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ مردوں کے مقابلے میں کم طاقتور ہوتی ہیں۔

عورتوں کے لیے مضبوط ہونا اتنا ضروری نہیں ہے جتنا سیلف ڈیفینس کے تکنیکی امور کو جاننا ضروری ہے کیونکہ سیلف ڈیفینس کی تکنیکیوں کو اپناتے ہوئے وہ بہ آسانی اپنا بچاؤ اور ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی ہمت بھی کر سکتی ہیں۔

سیلف ڈیفینس کی تربیت حاصل کرنے والی چند  خواتین نے ’وی نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ابتدا میں ان تکنیکی تفصیلات کو سمجھنا مشکل اور سیلف ڈیفینس کے لیے مستعمل آلات  بیگ میں رکھ کر گھومنے سے ڈر لگتا تھا۔

اگر اب ایسا ہو تو میں جان سے مار دوں

26 سالہ ایم فل کی طالبہ حمنہ نے بتایا کہ ایک حادثے نے انہیں اس بات کا احساس دلایا کہ عورت کا کسی سیلف ڈیفینس آلہ کے بغیراکیلے باہر نکلنا بہت بڑی بیوقوفی ہے۔

وہ کہتی ہیں ایک سال قبل وہ بھی باقی سب لڑکیوں کی طرح ہی تھی۔ نہ سیلف ڈیفینس آتا تھا اور نہ ہی ایسی کوئی چیز تھی جس کے ذریعے وہ کسی  بھی مشکل حالات میں اپنا بچاؤ کر سکتیں۔

’یونیورسٹی سے واپسی پر کریم سروس استعمال کرتے ہوئے گھر جا رہی تھی۔ آن لائن مانیٹرنگ کے باوجود بھی ٹیکسی ڈرائیور مجھے ہراساں کر رہا تھا اور وہ مجھے میرے گھر کے مخالف روٹ پر جب لے جانے لگا تو میں نے سوال کیا کہ یہ کہاں جا رہے ہیں؟ اس نے کہا کہ وہ راستہ کسی ایکسیڈنٹ کی وجہ سے بند ہے اور یہاں سے بھی ایک راستہ ہے تو مجھے لگا کہ شاید ہوگا میرے علم میں نہیں ہے۔‘

 ڈرائیور ان کو ایک اجنبی جگہ لے گیا تاہم انہوں نے ٹیکسی ڈرائیور کو اپنی باتوں سے یہ باورکرانا شروع کردیا کہ ان کا تعلق فوجی گھرانہ سے ہے اور ان کے چچا بریگیڈیئر ہیں۔

’شروع میں تو بہت خوف زدہ ہو گئی تھی۔ مگر جو کہانی میں نے اس کو سنائی، اس سے وہ کافی ڈر گیا اوراس نے مجھے وہی چھوڑ دیا۔ میں نے کریم سروس میں شکایت بھی کی مگر اس پر کسی نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔‘

حمنہ کے مطابق اس واقعہ نے انہیں بہت شدت سے احساس دلایا کہ ایسے ہی باہر نہیں نکلنا چاہیے۔ اور پھر ان کے والد نے انہیں مرچوں والا سپرے اور چاقو دیا۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کے بعد اب ان کے بیگ میں ہر وقت چاقو موجود ہوتا ہے۔

’اب میری شخصیت میں بہت اعتماد آچکا ہے۔ اس واقعہ نے مجھے اس قابل بنا دیا ہے کہ کسی کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کر سکتی ہوں اور اب کوئی میرے ساتھ کسی بھی قسم کی غلط حرکت کرنے کی کوشش بھی کرے تو جان سے مار دوں گی۔‘

خود کو بہت پر اعتماد اور نڈر سمجھتی تھی مگر وقت آنے پر گھبرا گئی

سیلف ڈیفینس آلات سےمتعلق پوچھے گئے سوال پر تفصیل سے جواب دیتے ہوئے 24 سالہ ایک اسکول ٹیچر ثانیہ کا کہنا تھا کہ وہ ایک نجی اسکول میں پڑھاتی ہیں اور ان کے گھر سے اسکول کا راستہ تقریباً 25 منٹ میں طے ہوتا ہے۔ وہ پیدل جاتی ہیں مگر ان کے لیے وہ 25 منٹ کا فاصلہ طے کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔

چونکہ وہ خود کو ایک پر اعتماد لڑکی سمجھتی تھیں اس لیے انہیں لگتا تھا کہ جہاں سے وہ گزر کر جاتی ہیں وہ  ایک گنجان راستہ ہے اور ( ثانیہ کے مطابق) اس طرح کے راستے پر کبھی کوئی غلط حرکت نہیں کر سکتا۔

’ایک دفعہ سکول سے واپسی پر رش کے باوجود بھی ایک شخص میرے قریب سے گزرا اور اس نے گزرتے ہوئے اپنا ہاتھ میرے سینے پر لگایا اور تیزی سے گزر گیا۔ ایک لمحے کے لیے میرا دماغ سن ہو گیا، سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ آخر میرے ساتھ ہوا کیا ہے!‘

ثانیہ نے بتایا کہ اس کے بعد سے وہ اپنے پاس سیفٹی پن رکھتی ہیں۔ تا کہ کوئی قریب سے بھیڑ میں چالاکی کے ساتھ چھو کر گزرنے کی کوشش کرے تو میں جواباً اپنا ردعمل دے سکوں۔ ایسا ایک بار پھر ہوا۔

’راولپنڈی کی ایک تنگ گلی سے گزرتے ہوئے ایک شخص قریب سے گزرا، اس کا ہاتھ میرے ہاتھ سے ٹکرایا مگردوسری  بار جب ایسا ہوا تو سمجھ گئی۔ میں نے فوراً اپنے اسکارف سے ایک پن اتاری اور جھٹ سے اس کے بازو میں زور سے چبھو دی۔ شاید وہ سیفٹی پن اس کی بازو کے اندر تک دھنس گئی تھی کیونکہ میں نے جب ہاتھ پیچھے کیا تو پن میرے ہاتھ میں نہیں تھی۔‘

ثانیہ کے مطابق جب انہوں نے اس شخص کے چہرے پر تکلیف دہ تاثرات دیکھے تو انہیں بہت سکون ملا۔ کیونکہ وہ چاہتی تھیں کہ اسے اس تکلیف کا اندازہ ہو۔‘

ایک سوال کے جواب میں اسکول ٹیچر کا کہنا تھا کہ پہلے تو نہیں مگر اب وہ خود کو واقعی پراعتماد سمجھتی ہیں۔ اب وہ جان چکی ہیں کہ اس طرح کے مسائل کا حل کیسے نکالا جاتا ہے؟

’ میں نے اپنے اسکول کی بڑی بچیوں کو بھی سمجھایا کہ انہیں چلتے ہوئے کوئی تنگ کرے تو کچھ نہ سہی اپنی اسکارف پن سے اپنا بہ آسانی دفاع کر سکتی ہیں۔‘

والدین جب ٹریننگ کے لیے بھیجتے تھے تو بہت غصہ آتا تھا

14 سالہ رامین میٹرک کی طالبہ ہیں، انہوں نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ پچھلے ایک سال سے ٹریننگ سینٹر میں سیلف ڈیفنس سیکھنے کے لیے جاتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ جب ان کے والدین نے ان کا داخلہ کروایا تو انہیں بہت غصہ آتا تھا کیونکہ وہ  سمجھتی تھی کہ یہ ایک نہایت ہی عجیب چیز ہے۔ انہوں نے متعدد بار اپنے والدین سے کہا بھی کہ انہیں یہ سب سرگرمیاں پسند نہیں ہیں۔ ’مگر پھر میری ماما نے مجھے سمجھایا کہ یہ شوق کی بات نہیں ہے بلکہ یہ میری حفاظت کے لیے ضروری ہے۔‘

رامین نے بتایا کہ ان کی والدہ نے انہیں زینب کیس سمیت دیگر واقعات کے بارے میں بتایا اور سمجھایا کہ یہ سب کیوں ازحد ضروری ہے۔

’مجھے کراٹے آتے ہیں اور میری ٹریننگ میں خاص طور پر مردوں کا مقابلہ کرنا سکھایا ہے، تاکہ اگر میرے پاس کوئی سیلف ڈیفینس کے آلات موجود نہیں تو مجھے پتا ہو کہ جسم کے کون سے پریشر پوائنٹس ہیں اور کن اعضا کو میں نشانہ بنا کر اگلے بندے کو بہ آسانی زیر کرسکتی ہوں۔‘

خواتین کے پاس ہر وقت سیلف ڈیفنس کے آلات موجود ہونے چاہییں۔ مگر وہ کون سے آلات ہیں جو ان کے پاس ہونا ضروری بھی ہوں اور وہ کسی بھی موقع پر ان کا استعمال نہایت آسانی سے کر بھی سکیں۔

خواتین کے پاس سیلف ڈیفنس کے لیے کیا کچھ ہونا چاہیے؟

اس حوالے سے رہنمائی کرتے ہوئے’ مشن فٹ پاکستان ‘ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسرشیہان آکاش نے وی نیوز کو بتایا کہ خواتین کو ہر جگہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اپنی حفاظت کے لیے خواتین کو کچھ باتوں کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔

شیہان آکاش نے سب سے پہلے تو خواتین کو ہمیشہ سڑک پر ٹریفک کی مخالف سمت چلنے کا مشورہ دیا۔ ’مطلب ٹریفک آپ کے سامنے سے آرہی ہو۔ اس طرح آپ کواپنے سامنے سے آنے والی گاڑیاں اور موٹر سائیکل نظر آئیں گی۔ جب آپ سڑک پر ٹریفک کے رخ پر چلیں گے تو آپ کو اپنے پیچھے سے آنے والی گاڑیوں کا اندازہ نہیں ہوگا۔‘

شیہان آکاش نے مزید بتایا کہ سب سے پہلا ہتھیار موبائل فون ہے، جو صرف ہماری جان کا دشمن نہیں ہے بلکہ اس سے دوسروں کی جان بھی لی جا سکتی ہے۔

’موبائل فون کا ایک کونا کنپٹی پر ماریں۔ کیونکہ اس سے شریان بھٹ سکتی ہے اور سامنے والے بندے کی جان بھی جا سکتی ہے۔ اسی کونے کو ناک، دانت، اور آنکھ پر بھی مار سکتے ہیں۔‘

اگر بیگ میں پن موجود ہے تو اس کو گلے کے درمیان میں زور سے ماریں تو گلے کے اندر سوراخ کردے گا۔ اور یہی پن آنکھ  پربھی مار سکتے ہیں اس سے آنکھ ضائع ہو جائے گی۔

لڑکیوں کے بیگ میں کون سے آلات ہونا ضروری ہیں؟

 لڑکیوں کے بیگ میں باڈی اسپرے، لال مرچیں، پن، سیفٹی پن یا پھر کوئی بھی نوک دار چیز موجود ہو تو وہ گلے سے آنکھ تک استعمال کرکے آرام سے اپنا دفاع کر سکتی ہیں۔

شہیان آکاش کے مطابق اکثر خواتین سمجھتی ہیں کہ وہ مردوں سے کمزور ہیں۔ اگر وہ اس بات کا خیال رکھیں کہ آنکھ، ناک، گلہ یہ سب نازک پوائنٹس ہیں اور ان پوائنٹس پر دفاعی صورت میں جوابی حملہ کے بعد انہیں مزید کچھ نہیں کرنا پڑے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp