دنیا کے بیشتر ممالک سے الگ، پاکستان نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ تعلقات میں اپنے پتے درست کھیل لیے ہیں، اور اب ان چند ممالک میں شامل ہے جنہوں نے امریکا کے ساتھ کسی بڑے تعطل کے بغیر تجارتی معاہدہ مکمل کرلیا، جبکہ سوئٹزرلینڈ، برازیل سمیت روایتی حریف بھارت اس میں ناکام رہے۔
بلوم برگ نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ اسلام آباد اور ٹرمپ وائٹ ہاؤس کے درمیان پہلی اہم پیش رفت اس وقت ہوئی جب رواں سال کے اوائل میں بھارت اور پاکستان جنگ کے قریب پہنچ گئے تھے، اور دونوں جانب سے میزائل اور ڈرون حملے کیے گئے۔
یہ بھی پڑھیں:امریکا نے پاکستان پر 19 فیصد ٹیرف عائد کر دیا، بھارت کو سختی کا سامنا
اس دوران صدر ٹرمپ نے جنگ بندی کا اعلان کیا، جسے پاکستان نے خوش آمدید کہا، مگر بھارت نے امریکی صدر کے ثالثی کے دعوے کو مسترد کر دیا، بعد ازاں بھارت کے امریکا سے تعلقات بتدریج بگڑتے چلے گئے۔
پاکستان کے پاس وہ اثاثے ہیں جنہوں نے صدر ٹرمپ کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی، دنیا میں سونے اور تانبے کے سب سے بڑے غیر استعمال شدہ ذخائر میں سے کچھ پاکستان میں موجود ہیں، جس سے یہ قیاس آرائیاں بڑھ گئی ہیں کہ امریکا یوکرین کی طرح معدنیات کا کوئی معاہدہ کرنا چاہتا ہے۔
مزید پڑھیں:پاکستان-امریکا تجارتی معاہدہ: کامیابی، چال یا نئے عالمی نظام کا جال؟
بہرحال پاکستان نے امریکی سرمایہ کاری بھی حاصل کی، اور صدر ٹرمپ نے ایک پوسٹ میں پاکستان کے ’وسیع تیل کے ذخائر‘ کو ترقی دینے کے لیے مل کر کام کرنے کا عندیہ دیا۔
بلوم برگ کے مطابق کرپٹو کرنسی بھی تعلقات میں اہم کردار ادا کر رہی ہے، صدر ٹرمپ کی حمایت یافتہ کمپنی ورلڈ لبرٹی فائنانشل کے نمائندے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کے دوران اسلام آباد پہنچے اور ڈیجیٹل کرنسی کو فروغ دینے کے لیے پاکستان کے ساتھ شراکت داری کا اعلان کیا۔
مزید پڑھیں:ٹرمپ کا امریکا اور پاکستان کی تجارتی ڈیل کا اعلان، تیل کے ذخائر پر بھی تعاون ہوگا
یہ تمام پیش رفت ایک غیر متوقع ملاقات پر منتج ہوئی، جب پاک فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا، اس کے کچھ ہی عرصے بعد پاکستان کی حکومت نے ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کا اعلان کیا۔
یہ صورتحال حالیہ برسوں میں امریکا سے تعلقات میں بڑی تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے، کیونکہ بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ پاکستان کے شاذونادر ہی اعلیٰ سطحی روابط ہوئے تھے، اس کے برعکس بھارت کو طویل عرصے تک چین کے خلاف ایک اہم اتحادی کے طور پر امریکا کی جانب سے فوقیت دی جاتی رہی۔
دوسری جانب پاکستان اب بھی مسائل سے دوچار ہے، یہ ماحولیاتی تبدیلی کی زد پر ہے اور صرف آئی ایم ایف کے قرضوں کی مدد سے معیشت کو مستحکم کر پایا ہے۔ تاہم اسلام آباد میں اس بات پر اطمینان پایا جا رہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ گرم جوش تعلقات کا امکان روشن ہے۔ ’۔۔۔اور یہ اعتماد اس وقت اور بھی خوشگوار محسوس ہوتا ہے جب بھارت دباؤ میں ہے۔‘