بھارت کی اسٹیٹ انویسٹی گیشن ایجنسی (SIA) نے 1990 میں نرس سرلا بھٹ کے قتل کے 35 سالہ پرانے مقدمے کو دوبارہ کھول دیا ہے، جسے ماہرین انصاف کی فراہمی کے بجائے مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری جبر کو جواز دینے اور کشمیری مسلمانوں کو بدنام کرنے کی ایک کوشش قرار دے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:بھارت کے یوم آزادی سے قبل مقبوضہ کشمیر میں فوجی محاصرہ مزید سخت
اس واقعے کو بھارتی حکومت کشمیری پنڈتوں کی ہجرت کے آغاز کے طور پر پیش کرتی ہے، جبکہ ماہرین کے مطابق یہ ہجرت زیادہ تر رضاکارانہ تھی۔
11 اگست کو سری نگر میں 8 مقامات پر چھاپے مارے گئے، جن میں سابق جے کے ایل ایف ارکان پیر نور الحق شاہ اور یاسین ملک کے گھروں پر بھی کارروائی شامل تھی۔ یہ چھاپے 35 سال پرانے واقعے کے شواہد اکٹھے کرنے کے لیے کیے گئے۔
سرلا بھٹ، جو شیرِ کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں ملازم تھیں، کو 18 اپریل 1990 کو ہوسٹل سے اغوا کیا گیا اور بعد ازاں قتل کر دیا گیا تھا۔
بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ قتل پنڈت برادری کو وادی سے نکالنے کی کوشش کا حصہ تھا۔ تاہم کشمیری پنڈتوں کے متعدد بیانات اس بیانیے کی نفی کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:مقبوضہ کشمیر: بھارتی فوج کا جعلی مقابلہ، مقامی لوگوں نے امیت شاہ کا دعویٰ مسترد کردیا
ناقدین کے مطابق یہ مقدمہ بھارتی ریاستی حکمتِ عملی کا حصہ ہے، جس میں کشمیری آزادی تحریک کو ’دہشتگردی‘ سے جوڑ کر سیاسی مطالبات کو غیر قانونی قرار دیا جاتا ہے۔
اس پالیسی کے تحت جعلی مقابلے، ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیاں، اور بے گناہ شہریوں کی گرفتاریوں کے واقعات عام ہیں۔
چٹہ سنگھ پورہ جعلی مقابلہ، کپواڑہ قتل اور ہندواڑہ کرکٹ فائرنگ جیسے واقعات اس منظم ریاستی جبر کی مثال ہیں، جہاں ’غلطی‘ کے نام پر دانستہ ظلم کو چھپایا جاتا ہے۔
سینیئر کشمیری صحافی گوہر گیلانی کے مطابق، بعض کشمیری مسلمانوں کی درخواست پر سینیئر بھارتی افسر وجاہت حبیب اللہ نے اُس وقت کے بدنام گورنر جگموہن سے کہا کہ پنڈت برادری کو جانے سے روکا جائے، تاہم گورنر نے واضح کر دیا کہ اگر وہ جانا چاہیں تو ان کے لیے کیمپ اور تنخواہوں کا بندوبست کر دیا گیا ہے، لیکن رہنے کی صورت میں ان کی سلامتی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔
یہ بھی پڑھیں:مقبوضہ کشمیر: بھارتی فوج نے جعلی مقابلے میں 3 کشمیری نوجوان شہید کردیے
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کیس بھارتی حکومت کے اس بڑے پروپیگنڈے کا حصہ ہے جس کے تحت اسلاموفوبیا اور فرقہ وارانہ نفرت کو بڑھاوا دے کر کشمیری مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں کو جائز قرار دیا جا رہا ہے۔