جعلی تحقیق کا بڑھتا رجحان: سائنس کی ساکھ پر کیا اثر ڈال رہا ہے؟

اتوار 17 اگست 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تحقیقی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ سائنس میں جعلی تحقیق کا رجحان خطرناک حد تک بڑھ رہا ہے جو نہ صرف سائنسی ساکھ کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ انسانی صحت سے متعلق تحقیق کو بھی متاثر کر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کم عمری میں اسمارٹ فون کا استعمال ذہنی صحت کے لیے نقصان دہ، تحقیق

ڈی ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق ایک تازہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ مخصوص ایڈیٹرز اور پبلشرز پر مشتمل منظم نیٹ ورکس سائنسی جرائد میں جان بوجھ کر کم معیار کی تحقیق شائع کر رہے ہیں۔ یہ مطالعہ معروف جریدے پی این اے ایس میں شائع ہوا جس کے دوران 70 ہزار مختلف سائنسی جرائد میں شائع ہونے والے 50 لاکھ سے زائد مضامین کا تجزیہ کیا گیا۔

امریکا کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی سے وابستہ سماجی سائنسدان ریس رچرڈسن، جو اس تحقیق کے سرکردہ مصنف ہیں، کہتے ہیں کہ تحقیق میں ایسے ایڈیٹوریل نیٹ ورکس کے ثبوت سامنے آئے ہیں جو کمزور یا غیر معیاری مضامین کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت شائع کرتے ہیں۔ ان نیٹ ورکس سے وابستہ کئی ’مڈل مین‘ افراد ایسے مصنفین کو ایڈیٹرز تک رسائی دلاتے ہیں جو کسی سائنسی معیار پر پورے نہیں اترتے۔

تحقیق میں شامل جرمنی کی فری یونیورسٹی برلن سے تعلق رکھنے والی سماجی سائنسدان اینا ابالکینا کا کہنا ہے کہ اس قسم کی علمی بددیانتی سائنس پر اعتماد کو نقصان پہنچاتی ہے۔ ان کے مطابق جب ناقص یا جعلی ڈیٹا کی بنیاد پر فیصلے کیے جاتے ہیں تو اس سے علاج اور تحقیق دونوں میں تاخیر پیدا ہوتی ہے۔

سائنس میں فراڈ کے بڑھتے آثار

تحقیقی مضامین، سائنسی ترقی کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ انہیں جرائد میں شائع کرنا محققین کا اہم ہدف ہوتا ہے مگر اب کچھ اندازوں کے مطابق ہر سات میں سے ایک تحقیقی اشاعت میں ڈیٹا جعلی پایا جاتا ہے اور اس رجحان کو مصنوعی ذہانت بھی مزید پیچیدہ بنا رہی ہے۔

ان تحقیقات میں جھوٹے نتائج، چوری شدہ یا ہیرا پھیری شدہ مواد اور ڈیجیٹل تصویری ترمیم جیسے عوامل شامل ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیے: بِھڑوں کے حملے سے بچنے کا آسان طریقہ، انہیں تھوڑا ’بھتہ‘ دیں!

رچرڈسن کے مطابق جب آپ ہزاروں تحقیقی مضامین کا ایک ڈیٹا بیس بناتے ہیں تو یہ جعلی نیٹ ورکس اور ان کے آپسی روابط کا نقشہ خود بخود سامنے آجاتا ہے۔

دھوکہ دہی کے نقصانات اور مثال

کووڈ 19 کے دوران جعلی تحقیق کا اثر نمایاں انداز میں سامنے آیا جب بعض مضامین میں ہائیڈروکسی کلوروکوئن کو کووڈ کا ممکنہ علاج قرار دیا گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ تحقیقات ناقابل اعتبار ذرائع پر مبنی تھیں جن کا مقصد سائنسی کم اور ذاتی تشہیر زیادہ تھا۔ ماہرین نے اسے سیلف پروموشن جرنلز کا مسئلہ قرار دیا جہاں مضمون لکھنے والے ہی اس جریدے کے ایڈیٹر بھی ہوتے ہیں۔

نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے ہی ایک اور محقق، لوئس امرال، جو اس تحقیق کے سینیئر مصنف ہیں، اسے اپنے کیریئر کا سب سے تکلیف دہ منصوبہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر سائنس کو انسانیت کے فائدے کے لیے برقرار رکھنا ہے تو اسے بچانے کی جنگ لڑنی پڑے گی۔

سائنسی پبلشرز بھی اس خطرے سے باخبر ہیں۔ ایک بڑے سائنسی ادارے اسپرنگر نیچر نے صرف سال 2024 میں اپنی 2،923 اشاعتیں واپس لے لیں۔ مگر ان مضامین کی اشاعت سے پہلے ہی وہ تحقیق پبلک ہو چکی ہوتی ہے اور اس کے اثرات پھیل چکے ہوتے ہیں۔

مسئلے کی جڑ کہاں ہے؟

ماہرین کے مطابق اصل مسئلہ اس سوچ میں ہے جہاں سائنسی تحقیق کی قدر صرف شائع شدہ مضامین کی تعداد یا حوالہ جات (citations) کی بنیاد پر ناپی جاتی ہے۔ رچرڈسن کا کہنا ہے کہ جب فنڈنگ اور نوکریاں اشاعت پر منحصر ہوں، تو بہت سے سائنسدانوں کے پاس صرف 2 راستے بچتے ہیں جن میں یا تو دھوکہ دہی یا پھر سائنسی کیریئر کا خاتمہ شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: ناسا کا طلبہ کے لیے چاند و مریخ روور چیلنج کا اعلان

اسی لیے محققین اس نظام کی اصلاح چاہتے ہیں جہاں اشاعت کی تعداد کے بجائے تحقیق کے معیار اور ساکھ کو اصل بنیاد بنایا جائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp