بنگلادیش میں آئندہ عام انتخابات سے متعلق غیر یقینی صورتحال بڑھتی جا رہی ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف گورننس اینڈ ڈویلپمنٹ (BIGD) کے تازہ ترین سروے کے مطابق، تقریباً نصف یعنی 48.5 فیصد ووٹرز نے ابھی تک فیصلہ نہیں کیا کہ وہ کسے ووٹ دیں گے۔ یہ شرح گزشتہ سال اکتوبر میں 38 فیصد تھی، جو اب نمایاں طور پر بڑھ گئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ بنگلہ دیشی ووٹرز واضح ذہن ہونے کے بجائے مخمصے کے شکار ہو رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے بنگلہ دیش میں عام انتخابات فروری 2026 میں ہوں گے، محمد یونس کا اعلان
معروف بنگلہ دیشی اخبار’ دی اسٹار‘ کے مطابق یہ سروے ’پلس سروے-3‘ کے عنوان سے یکم سے 20 جولائی کے دوران ملک بھر کے 5,489 شہریوں سے ٹیلیفونک انٹرویوز کے ذریعے کیا گیا۔ ان میں 53 فیصد مرد اور 47 فیصد خواتین شامل تھیں، جبکہ 73 فیصد دیہی اور 27 فیصد شہری علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔
سیاسی جماعتوں کی مقبولیت میں تبدیلی
ووٹنگ کے رجحانات میں، 12 فیصد نے بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) کا نام لیا۔
10.4 فیصد نے جماعت اسلامی کی حمایت ظاہر کی۔
2.8 فیصد نے نیشنل سٹیزن پارٹی (NCP) کو ترجیح دی۔
عوامی لیگ (AL) کی حمایت کم ہو کر 7.3 فیصد رہ گئی، حالانکہ اسے سیاسی سرگرمیوں سے روک دیا گیا ہے۔
جاتیا پارٹی کی حمایت 0.3 فیصد اور دیگر اسلام پسند جماعتوں کی حمایت 0.7 فیصد تک گر گئی۔
گزشتہ اکتوبر کے سروے میں BNP کو 16.3 فیصد اور جماعت اسلامی کو 11.3 فیصد کی حمایت حاصل تھی، جبکہ نئی طلبہ جماعت کو 2 فیصد حمایت ملی تھی۔ اس لحاظ سے BNP اور جماعت اسلامی دونوں کی مقبولیت میں کمی دیکھی گئی ہے، جبکہ NCP کو کچھ پذیرائی ملی ہے۔
یہ بھی پڑھیے بنگلہ دیشی الیکشن کمیشن نے عوامی لیگ کا انتخابی نشان ’کشتی‘فہرست سے خارج کر دیا
دلچسپ امر یہ ہے کہ اگرچہ براہِ راست حمایت میں کمی آئی، پھر بھی 38 فیصد عوام نے اندازہ لگایا کہ ان کے حلقے میں BNP کامیاب ہو گی۔ 13 فیصد نے جماعت اسلامی، سات فیصد نے عوامی لیگ اور ایک فیصد نے NCP کے جیتنے کا امکان ظاہر کیا۔
حکومتی کارکردگی کے بارے میں لوگ کیا کہتے ہیں؟
42 فیصد شہریوں کا ماننا ہے کہ ملک سیاسی طور پر درست سمت میں جا رہا ہے، یہ شرح اکتوبر میں 56 فیصد تھی۔
معیشت کے حوالے سے 45 فیصد نے کہا کہ ملک صحیح سمت میں ہے، یہ شرح پہلے 43 فیصد تھا۔
عبوری حکومت کی کارکردگی کو عوام نے اوسطاً 100 میں سے 63 نمبر دیے، جو اکتوبر میں 68 تھے۔
بنگلہ دیشی عوام کن شعبوں میں انتخابات سے پہلے اصلاحات چاہتے ہیں؟
سروے کے مطابق:
51 فیصد شہری چاہتے ہیں کہ انتخابات سے پہلے جامع اصلاحات کی جائیں۔
17 فیصد نے کہا کہ فوری نوعیت کی اصلاحات کے بعد ہی انتخابات ہوں۔
14 فیصد نے بغیر اصلاحات کے انتخابات کو ترجیح دی۔
اہم اصلاحاتی ترجیحات میں:
30 فیصد: قانون و امن میں بہتری
19 فیصد: سیاسی عدم استحکام کم کرنا
19 فیصد: انتخابی نظام میں اصلاحات
17 فیصد: بدعنوانی پر قابو
16 فیصد: عدالتی اصلاحات اور معیشت کی بہتری
13 فیصد: اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی
11 فیصد: امن و امان میں بہتری
10 فیصد: بے روزگاری میں کمی
انتخابی شیڈول اور شفافیت پر اعتماد
32 فیصد نے کہا کہ انتخابات دسمبر 2025 سے پہلے ہونے چاہئیں۔
25 فیصد نے دسمبر 2026 یا اس کے بعد انتخابات کا کہا۔
70 فیصد عوام پرامید ہیں کہ آئندہ انتخابات آزاد، منصفانہ اور شفاف ہوں گے، جبکہ 15 فیصد متفق نہیں اور 14 فیصد غیر یقینی میں ہیں۔
یہ نتائج BIGD اور ’وائس فار ریفارم‘ کے زیرِاہتمام نیشنل آرکائیوز آڈیٹوریم میں پیش کیے گئے، جہاں ماہرین نے ان نتائج پر تجزیہ بھی کیا۔