آئرلینڈ کی معروف مصنفہ سیلی رونی نے اعلان کیا ہے کہ وہ برطانیہ میں ’دہشت گرد تنظیم‘ قرار دیے جانے کے باوجود فلسطین ایکشننامی تنظیم کی حمایت جاری رکھیں گی۔
انعام یافتہ مصنفہ نے کہا کہ وہ اپنی تحریروں سے ہونے والی آمدنی اور اپنے عوامی پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے ’فلسطین ایکشن اور نسل کشی کے خلاف براہِ راست کارروائی کی حمایت‘ کرتی رہیں گی۔
یہ بھی پڑھیں: لندن میں ’فلسطین ایکشن‘ پر پابندی کے خلاف تاریخی احتجاج، 466 سے زائد افراد گرفتار
آئرش ٹائمز میں لکھے گئے اپنے مضمون میں ان کا کہنا تھا کہ اگر اس کا مطلب برطانوی قانون کے تحت دہشت گردی کی حمایت ہے، تو مجھے یہ منظور ہے۔
یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب برطانیہ کی ہوم سیکریٹری یویٹ کوپر نے ایک بار پھر وضاحت کی کہ فلسطین ایکشن صرف ’عام احتجاجی گروہ‘ نہیں بلکہ اس کی سرگرمیاں اس سے کہیں آگے ہیں۔
Sally Rooney: “I too support Palestine Action. If this makes me a “supporter of terror” under UK law, so be it. My books, at least for now, are still published in Britain, and are widely available … I want to be clear that I intend to use these proceeds of my work, as well as my… pic.twitter.com/C0t3owuE14
— Zaffar Kunial (@ZaffarKunial) August 16, 2025
یاد رہے کہ جولائی میں برطانوی حکومت نے اس فلسطین ایکشن کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا، جو زیادہ تر خصوصاً غزہ جنگ کے آغاز کے بعد اسلحہ ساز کمپنیوں کو نشانہ بناتی رہی ہے۔
مقبول کتابوں نارمل پیپل اور انٹرمیزو کی خالق سیلی رونی فلسطین ایکشن کی کھل کر حمایت کرتی رہی ہیں، انہوں نے جون میں معروف برطانوی اخبار گارڈین میں لکھا تھا کہ فلسطین ایکشن پر پابندی آزادیٔ اظہار پر خطرناک حملہ ہوگی۔
مزید پڑھیں: برطانوی کرنل (ر) کرس رومبرگ لندن سے کیوں گرفتار ہوئے؟
یہ بیان ایسے وقت آیا جب فلسطین ایکشن نامی گروپ کے کچھ ارکان نے برطانوی رائل ایئر فورس کے رائز نورٹن بیس میں داخل ہو کر 2 طیاروں پر سرخ پینٹ چھڑکا تھا، جس سے تقریباً 70 لاکھ پاؤنڈ کا نقصان ہوا۔
اس سے قبل 2021 میں رونی نے اپنی کتاب ’بیوٹی فل ورلڈ ویہرآر یو‘ کا عبرانی زبان میں اسرائیلی پبلشر کے ذریعے ترجمہ کروانے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ فیصلہ فلسطین پراسرائیلی پالیسیوں کے خلاف بائیکاٹ کی حمایت میں کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں:برطانیہ اور اس کے اتحادی ممالک نے اسرائیلی وزرا پر پابندیاں عائد کردیں
اپنے حالیہ مضمون میں انہوں نے کہا کہ وہ اپنی تحریروں سے حاصل ہونے والی آمدنی، بشمول بی بی سی کی مشترکہ پروڈکشن سے حاصل رائلٹیز، کو فلسطین ایکشن کی حمایت میں استعمال کرتی رہیں گی۔
برطانیہ میں اس فلسطین ایکشن پر پابندی کے بعد 5 جولائی سے اب تک 700 سے زائد افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جن میں سے 500 سے زیادہ افراد کو گزشتہ ہفتے لندن میں ایک احتجاجی مظاہرے کے دوران حراست میں لیا گیا۔
مزید پڑھیں:کیا برطانیہ فلسطینی ریاست کو باقاعدہ تسلیم کرنے والا ہے؟
یویٹ کوپر کا کہنا ہے کہ فلسطین ایکشن کا مبینہ ’انڈر گراؤنڈ مینول‘ بھی موجود ہے، جس میں ہدف تلاش کرنے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بچنے کے طریقے بیان کیے گئے ہیں، ان کے مطابق یہ کسی جائز احتجاجی گروہ کی کارروائیاں نہیں ہیں۔
ادھر سیلی رونی نے الزام عائد کیا کہ برطانوی حکومت نے اسرائیل سے تعلقات بچانے کے لیے اپنے شہریوں کو بنیادی حقوق اور آزادیوں سے محروم کر دیا ہے، جس کے ثقافتی اور فکری زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
مزید پڑھیں: فلسطینیوں کے حق میں فرانس، برطانیہ میں بڑے مظاہرے، دنیا کی بڑی طاقتیں ششدر رہ گئیں
اسرائیل بارہا نسل کشی کے الزامات مسترد کرتا آیا ہے، لیکن کئی معروف اسرائیلی اور بین الاقوامی انسانی حقوق تنظیمیں کہہ چکی ہیں کہ غزہ جنگ میں اسرائیلی اقدامات فلسطینی عوام کے خلاف نسل کشی کے مترادف ہیں۔